اِک شہرِ خموشاں ہے اور چھائی ہے تنہائی
بھیڑ ہے لوگوں کی اور دل ہے تماشائی
یکطرفہ تکلم ہے خود ہی سے مخاطب ہیں
خود سے بیگانہ ہیں خود ہی سے شناسائی
کشکول ہے ہاتھوں میں دہلیز ہے غیروں کی
پھر پوچھتے ہیں خود سے کیسی ہے یہ رسوائی
دیکھتے ہیں دن میں ان گنت تماشے ہم
دل بجھ تو گیا لیکن بجھتی نہیں بینائی
محمد عبداللہ
کیا کہنے بہت خوب
جواب دیںحذف کریںبے حد شکریہ جناب :)
حذف کریں