اتوار، 31 اگست، 2014

چوہدری صاحب

چوہدری صاحب ہماری چنڈال چوکڑی کے سب سے اہم اور خاص الخاص رکن ہیں۔ہمارے جان من تو ہیں ہی لیکن جان محفل بھی ہیں۔ (براہ مہربانی جان من سے ہمیں پشاری پٹھان نہ سمجھا جاوے)۔ انکے بغیر محفل کا تصور یوں ہے جیسے زبان کے بغیر عورت۔ محفل میں نہ ہوں تو حاضرین بوریت سے مر جائیں اگر ہوں تو انکی باتیں سن کر۔ اپنے  نام کے ساتھ جناب محترم کا لاحقہ خود ہی لگا لیتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ عزت انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے دوسروں کے سامنے  اپنی عزت تب تک کرو جب تک دوسرے لوگ نہ کرنے لگ جائیں۔بلا کے خوش مزاج ہیں ۔ اپنی بے عزتی پر بھی خفا ہونے کی بجائے خوش ہوتے ہیں ۔مشہور و معروف ہستی ہیں اور مزید شہرت کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔اس میدان میں میرا جی کو آئیڈئل سمجھتے ہیں۔  نا صرف آئیڈئل سمجھتے ہیں بلکہ انکی طرح انگریزی بھی بولتے ہیں۔ خوبصورت بھی ہیں اسلئے بچپن میں بوائیز سکول کے فنکشنز میں لڑکی کا رول عموماً انہیں ہی ملتا تھا۔

ذات کے ارائیں ہیں لیکن دل کے کیا ہیں یہ کوئی نہیں جانتا شائد خود بھی نہیں۔ انکے نام کا لازم و ملزوم حصہ چوہدری ہے۔ اگر انہیں  چوہدری کے بغیر مخاطب کیا جائے تو اسے گالی تصور کرتے ہیں اور ایسی بدصورت عورت کی طرح روٹھ جاتے ہیں جس کی خوبصورتی کی تعریف نہ کی گئی ہو۔ مخمصے کی بات یہ ہے کہ انکے والد صاحب کے شناختی کارڈ پر نام کے ساتھ میاں درج ہے۔ ایک بار ہم  نے ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا کہ  چوہدری صاحب آپکے والد صاحب تو اپنے  نام کے ساتھ میاں لگاتے ہیں پھر آپ چوہدری کیوں؟ فرمانے لگے"آجکل چوہدریوں کا دور ہے اسلئے۔ اور ویسے بھی ہم چوہدری ہیں ہم نے ہر کام ان سے پوچھ کے تو نہیں کرنا"۔ایک بار ایک صاحب انکے سامنے مغلوں کے عروج کا ذکر کر بیٹھے۔ ان صاحب نے مغلوں کی سلطنت اور  جاہ جلال  کا کچھ ایسا نقشہ کھینچا کہ موصوف اس سے بے حد متاثر نظر آنے لگے۔ بعد میں ہم سے مشورہ  کرتے ہوئے فرمانے لگے "کیا خیال ہے مغل نہ ہو جائیں؟"  تب ہم نے سمجھایا کہ  جناب مغلوں کا دور نکل گیا ہے آجکل مغل لوہا کوٹنے اور کاٹنے کا کام کرتے ہیں۔  اسلئے آپ چوہدری پر ہی قناعت کریں  یا کچھ اور سوچیں۔کچھ عرصہ قبل جب موصوف نے ذاتی کاروبار شروع کیا تو انکے وزیٹنگ کارڈ پرانکے نام کے ساتھ جلی حروف میں میاں جگمگا رہا تھا۔ استفسار کرنے پر فرمانے لگے "بھائی آجکل میاں صاحبان کا دور ہے۔ ہمارا ایم این اے میاں، ہمارا وزیراعلیٰ میاں، ہمارا وزیراعظم میاں اور تو اور ہمارے والد صاحب اور دادا جی بھی میاں ہی ہیں تو ہمیں کیا مصیبت پڑی کہ چوہدری بنے رہیں چوہدری تو آجکل ٹکے ٹوکری ہوئے پڑے ہیں اور  بندے ڈھونڈ رہے ہیں۔"

اور لوگوں کی طرف موصوف نے بھی عشق فرمایا اور جی جان سے فرمایا ۔ عشق میں ناکام ہونے پر لوگ عموماً ڈاڑھی بڑھا لیتے ہیں لیکن  موصوف  نے  ناکامی عشق پر پیٹ  بڑھا لیا۔ کسی دور میں محبت میں بھی توحید کے قائل تھے لیکن محبت میں ناکامی کے بعد ا ب بیک وقت  چار محبتوں کے پرچارکر ہیں۔ فرماتے ہیں " جب اسلام میں بیک وقت چار شادیوں کی اجازت بلکہ تاکید فرمائی  گئی ہے تو ہم کیوں  نہ چار محبتیں کریں اب شادی کیلئے محبت کرنا تو ضروری ہے نا" ۔جب محبت میں توحید کے قائل تھے تب بے شمار حسینائیں انکی راہ میں آنکھیں بچھاتی تھیں اور اب انکو دیکھ کے گھبرا جاتی ہیں۔

بچپن ہی سے ذرا خوش خوراک واقع ہوئے ہیں۔ دن میں کم از کم پانچ بار کھانا کھاتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ دنیا کے سارے جھگڑے پیٹ کے ہیں۔اسلئے پیٹ کے معاملے میں نو کمپرومائز۔ کھانے میں مفتا  پسند کرتے ہیں اور پینے میں ہر وہ چیز جو انہیں چاند پہ پہنچانے میں مددگار ثابت ہو۔انکا قول ہے  کہ جہاں سے بھی مفت کھانے کو ملے کھا لو یہ اللہ کی دین ہوتا ہے اور اس سے انکار کفران نعمت۔ ایک بار ایک دوست کے کچھ پیسے ایک صاحب دبائے بیٹھے تھے  ۔ وہ دوست اپنے پیسے برآمد کرانے  کیلئے موصوف کو ساتھ لے گئے تاکہ کچھ رعب پڑ سکے۔ان صاحب  نے اگلا بہانہ لگانے کے ساتھ ہی چائے  کی آفر کردی اور چوہدری صاحب اپنے آنے کا مقصد فراموش کر کے چائے نوش فرمانے بیٹھ گئے۔

پرفیومز اور عطریات کے بے حد شوقین ہیں  اور اس معاملے میں شاہانہ مزاج رکھتے ہیں ۔ جو خوشبو انہیں پسند آ جائے وہ ضرور خریدیں گے چاہے دس گنا قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ پیسے کو ہاتھ کا میل سمجھتے ہیں اور کبھی صابن سے ہاتھ نہیں دھوتے۔ نہاتے اسلئے نہیں کہ کہیں باڈی سپرے نہ اتر جائے۔ کپڑے اسلئے ہفتہ بھر نہیں بدلتے کہ انکی لگائی ہوئی خوشبو ہفتہ بھر کپڑوں سے نہیں جاتی۔ بنیان پہننے کا تکلف اسلئے نہیں کرتے کہ باڈی سپرے کی خوشبو نہ روک لے۔شوقین مزاج تو ہیں ہی اسلئے ڈانس سے بھی رغبت ہے۔ پرائی شادیوں میں مفت میں ڈانس کرتے ہیں اور جاننے والوں کی شادی میں پیسے لیکر۔ ڈانس بھی ایسا غضب کا کہ نرگس بھی انکے سامنے پانی بھرتی نظر آئے ۔  کالج کے فنکشن میں ایک بار اسٹیج انکے ڈانس کی تاب نہ لاتے ہوئے ٹوٹ گیا تھا۔

لوگ تبلیغی جماعت کے ساتھ جاتے ہیں موصوف جماعت کو اپنے ساتھ لے کر گئے۔ پوری جماعت میں یہ اپنی نوعیت کے واحد آدمی تھے جن سے امیر صاحب  بھی کسی کام سے پہلے  اجازت طلب کرتے۔ جماعت کے ساتھ جانے سے پہلے موصوف سگریٹ کے ساتھ ساتھ جس چیز سے شغل فرماتے وہ پاکستان میں تارا (TARA) یا ہاٹ (HOT) کے نام سے ملتی ہے۔ جب دورے سے واپس آئے تو موصوف کے ہاتھ میں تارا کی بجائے پٹھانوں کی مشہور سوغات  تھی۔  اس سوغات سے آشنا ہونے کے بعد انہیں کچھ بھی پسند نہیں آتا اور موصوف ہر کام سے پہلے اللہ کا نام لینے کے ساتھ ساتھ "چونڈی" بنانا ضروری خیال کرتے ہیں۔اگر کوئی انکے ہاں مہمان آجائے تو پانی سے پہلے اس سے "چونڈی" کا پوچھتے ہیں۔  اس سوغات سے جتنی محبت انہیں ہے اتنی خود پٹھانوں کو بھی نہیں ہوگی۔ اگر کوئی ان کے سامنے چونڈی کہہ دے تو  انہیں غصہ آ جاتا ہے موصوف اسے چونڈی کہنا پٹھانوں کی اس عظیم ایجاد اور خود پٹھانوں کی توہین سمجھتے ہیں اور اس سوغات کو جنتی کشتہ اور چونڈی کو جنتی کشتے کی ڈلی کہتے ہیں۔


بے حد دوست نوازہیں۔ دوستوں کیلئے کچھ بھی کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور دوستوں کے لئے جان  بھی قربان کر سکتے ہیں۔ ایک بار کرکٹ کھیلتے ہوئے انکے ایک عزیز از جان دوست کی لڑائی ہوگئی ارد گرد کھڑے فیلڈرز میں سے کچھ تو رفو چکر ہو گئے اور کچھ مزے سے انہیں پٹتا دیکھنے لگے ۔موصوف باؤنڈری سے بھاگتے ہوئےآئے اور  اپنے دوست کو بچانے کیلئے  اس جنگ میں کود پڑے نتیجتاً دوست کو تو بچا لیا لیکن خود نہ بچ پائے۔ انکے دوست نے بھی موقع غنیمت جان کر فرار ہونے میں عافیت سمجھی اور چوہدری صاحب  سر پر پٹی اور جسم پر نیل لئے گھر پہنچے۔ وہ دن ہے اور آجکا دن موصوف اہنسا وادی ہوچکے ہیں اور  سختی سے گاندھی جی کے فلسفہ عدم تشددپر کاربند ہیں۔ 

8 تبصرے:

بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ