جمعہ، 27 جون، 2014

لہور لہور اے

یوں تو لاہور شہر کی تعریف میں بہت سےمقولے اخذ کئے گئے ہیں لیکن ایک جملہ جو لاہور کی ساری خصوصیات کو اپنے اندر سمو لیتا ہے وہ یہی ہے کہ "لہور لہور اے"۔ بزرگوں کے مطابق لاہور کی اس سے جامع اور مختصر تعریف ممکن ہی نہیں ہے۔  اگر آپ لاہور کو کسی سے تشبیہ دینے کی کوشش کریں گے یا اسکی مماثلت تلاش کرنے کی کوشش کریں گے تو آپکو احمق قرار دئیے جانے کا قوی امکان ہے۔یہ اسی طرح ہے جیسے ملکہ الزبتھ اور تندور پہ روٹیاں لگانےوالی مائی میں مماثلت تلاش کرنا۔ اسی پر بس نہیں   پطرس صاحب  لاہور کی تعریف کے ساتھ ساتھ اسکے محل وقوع کے بارے میں بھی ایسا ہی کچھ فرما گئے ہیں۔ فرماتے ہیں
"لاہور لاہور ہی ہے۔ اگر آپکو اس پتے پر لاہور نہیں مل سکتا تو آپکی تعلیم ناقص اور ذہانت فاتر ہے"۔

لاہور کے حکمرانوں کے مطابق لاہور لاہورنہیں رہا بلکہ پیرس بن گیا ہے۔ ایک بار ایک بزرگ بڑے جذباتی انداز میں لاہور کی تعریف فرما رہے تھے ۔ ہم نے یونہی عادت سے مجبور ہو کر چھیڑ خانی کی  اور کہا
"بزرگو! اب لاہور لاہور نہیں رہا اب تو یہ فرنگیوں کا پیرس بن گیا ہے"۔
بزرگوار نے قہر آلود نظروں سے ہماری طرف دیکھا اور لاہور کو پیرس بنانے اور کہنے والوں کے شجرہ نسب میں درستگی کی اور فرمانے لگے۔موا پیرس کبھی بھی لاہور نہیں بن سکتا۔   اسکے بعد پھر پیرس والوں پر ڈارون کے نظریہءارتقا کا اطلاق کیا پھر حکمرانوں پر اپنا غصہ نکالنے کے بعد دانشورانہ انداز میں فرمانے لگے۔
"پتر! لاہور ابھی بھی لاہور ہی ہے۔ یہ جتنا بھی پیرس بنا ہے نا یہ ہمارے بزرگوں کے وقت لاہور میں تھا ہی نہیں "۔

 لاہور صرف پیرس ہی نہیں بنا بلکہ  سال میں ایک بار برسات کے دنوں میں وینس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔  کراچی کی طرح یہاں پر سمندر نہیں ہے اور دریا بھی اب کشتی رانی کی بجائے کرکٹ اور والی بال کھیلنے کے کام آتا ہے۔ اسلئےاگر آپ کشتی رانی کے شوقین ہیں تو آپکو کہیں اور جانے  اور پیسے ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں برسات کے دنوں میں آپ کشتی رانی کا شوق یہیں پر سستے داموں پورا کر سکتے ہیں۔ 

جیسے لاہور لاہور ہے اسی طرح یہاں کے باشندے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ ان جیسی ہستیاں آپکو پاکستان بھر میں کہیں نہیں ملیں گے اور پاکستان سے باہر تو بالکل بھی نہیں۔ہمیں یاد ہے جب ہم نے زندگی میں پہلی بار تنہا سفر کیا تھا تو ہمیں یہ نصیحت فرمائی گئی تھی کہ کسی کے ساتھ زیادہ فری نہ ہونا کسی سے کچھ لیکر نہ کھانا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب ہم نے لاہور کی طرف رخت سفر باندھا تو ہمیں جو واحد نصیحت کی گئی وہ یہ تھی کہ "کسی لاہوری سے رستہ مت پوچھنا"۔

اگر آپ لاہور میں نئے ہیں تو آپکے پاس اچھا سا فون ہونا چاہیے جس میں گوگل میپس کی سہولت موجود ہو۔ اس سہولت کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ آپ لاہوری گردی سے محفوظ رہیں گے دوسرا یہ کہ آپ رکشہ والوں کی تفریح طبع اور اضافی کمائی کا سبب بننے سے بھی بچے رہیں گے۔کیونکہ رکشے والوں کی عقابی نظریں پہچان لیتی ہیں کہ آپ نئے ہیں یا وہ نیا ہے۔ اگر آپکے پاس ذاتی سواری موجود  ہے تو آپ کسی لاہوری کی زندہ دلی کا شکار بننے کی بجائے اس پر انحصار کریں اور اگر آپکے پاس ذاتی سواری موجود نہیں ہے   اور آپ رکشہ سے سفر کرنا چاہتے ہیں تو آپکو چاہیے کہ آپ  پہلے یہ دیکھ لیں کہ آپ نے جہاں جانا ہے وہ اس جگہ سے کتنی دور ہے اس طرح آپ  اعتماد سے بھاؤ تاؤ بھی  کرسکتے ہیں اور رکشے والے کی تفریح طبع سے بھی بچ سکتے ہیں۔

یونہی ایک بار ہمیں کہیں جانا مقصود تھا وقت کی قلت، راستوں اور لوکل ٹرانسپورٹ کے روٹس سے عدم واقفیت کی بنا پر ہم نے آٹو رکشے کو ترجیح دی۔ رکشے والے بھائی صاحب سے بھاؤ تاؤ کرنے کے بعد ہم سوار ہو گئےان صاحب نے تھوڑی دیر بعد ہمیں ایک جگہ اتار دیا۔ ڈھائی سو روپے ان کے ہاتھ پہ دھرنے کے بعد جب ہم نے ادھر ادھر دیکھا تو جگہ کچھ دیکھی بھالی ہوئی محسوس ہوئی۔ تھوڑا سا چلنے اور ادھر ادھر غور کرنے کے بعد پتا چلا کہ وہ بھائی صاحب ہمیں گیڑا دےگئے ہیں۔ ہم پہلے چوک کی ایک جانب کھڑے تھے ڈھائی سو روپے خرچ کرنے کے بعد دوسری جانب۔

 کہتے ہیں "جنے لہور نی ویکھیا او جمیا  ای نی"۔  اس مشہور و معروف مقولے کا مطلب بھی ہمیں لاہور کی سڑکیں پار کرتےہوئے سمجھ آیا جب بیشتر بار ہم لاہور کی کسی گاڑی اور ویگن کے نیچے آتے آتے بچے  اور ہمیں نئی زندگی ملی۔ لاہور کی سڑکوں پر پھرنے سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ اللہ کے ذکر اور موت سے غافل نہیں ہوتے۔ اگر آپکے ساتھ ایسا نہیں ہوتا اور آپ اپنی ہی موج میں چلنے کے عادی ہیں تو آپکو ہوش میں رکھنے کیلئے بسوں اور گاڑیوں کے منحوس کن ہارن بھی پائے جاتے ہیں۔

اگر کبھی عید قربان یا کسی اور موقع پر بھیڑوں بکریوں کو ڈالے میں لدا ہوا دیکھ کر آپکے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ یہ زندہ سلامت منزل مقصود تک کیسے پہنچ جاتی ہیں تو آپ لاہور کی لوکل ٹرانسپورٹ سے استفادہ کریں اور سفر کر کے دیکھیں آپکے سوال کا جواب بھی مل جائے گا اور پریکٹس بھی ہو جائے گی۔ ایک نصیحت نما مشورہ دینا ہمارا فرض ہے کہ کبھی زیادہ مسافروں کو سوار کرنے پر آپ کنڈیکٹر سے الجھئے گا مت ورنہ آپکے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہےاور کچھ بھی ہونے کا انحصار عموماً کنڈیکٹر کی طبیعت پر ہوتا ہے۔ ایک بار ویگن پر سفر کرتے ہوئے جب ہمارا دم گھٹنے لگا تو ہم نے سٹوڈنٹ ہونے کے زعم میں کنڈیکٹر کو بڑھک لگائی کہ اب کسی کو چڑھایا تو تمہیں اتار دیں گے۔ اسکے بعد کی کہانی یہ ہے کہ موصوف نے گاڑی میں جگہ بنانے کیلئے ہمیں ہی اتار دیا اور اتارا بھی ایسی جگہ جہاں پانی بھی میسر نہیں تھا۔

لاہور میں حکماء بھی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ تقریباً تمام حکماء جنسی امراض میں اسپیشلسٹ ہیں۔ شہر میں جابجا لگے اشتہارات اور سائن بورڈز آپکو انکو موجودگی کا یقین دلاتے ہیں اور تقریباً ہر چوک پر ایسے مطب اور دوا خانے قائم ہیں۔  یہ حکماء اور انکی مشہوری کے اشتہارات اتنی کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ اچھا بھلا صحت مند انسان اپنے بارے میں شکوک شبہات کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہر مطب میں مطب کے سائز اور حکیم صاحب کے بنک اکاؤنٹ کے مطابق فیلڈ ایجنٹس کام کرتے ہیں  ۔ انکا کام بسوں میں حکیم صاحب کی تیار کردو معجون  و دیگر ادویات فروخت کرنا ہوتا ہے اور یہ ایجنٹس ہی مطب کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں کیونکہ مطب کی نصف سے زائد کمائی ان کے مرہون منت ہوتی ہے۔ ان حکماء کے درمیان مقابلے کی فضا پائی جاتی ہے اسلئے اشتہار بازی کے ساتھ ساتھ  مریضوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے مختلف پیکجز کا اعلان کیا جاتا ہے۔مثلاً دوائی کے ساتھ ڈیڑھ چھٹانک سانڈھے کے تیل کی فراہمی، دو تولے معجون خاص اور دو مریضوں کے ساتھ تیسرا فری وغیرہ وغیرہ۔

اگر آپ خدانخواستہ دانتوں کے کسی مرض میں مبتلا ہیں اور اسکے مہنگے ترین علاج کی استطاعت بھی نہیں رکھتے تو بھی پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہاں لاہور پھر اپنی باہیں پھیلائے آپکو اپنی آغوش میں لینے کو تیار ہے۔ حکیموں کے دواخانوں کے باہر ہی آپکو سامنے والے تھڑے پر ماہر دندان ساز اپنے پورے سازوسامان مثلاً لکڑی کی کرسی، شیشہ ، ٹارچ والا موبائل، ہتھوڑی، زنبور اور ریگمال کے ساتھ دستیاب ہونگے۔  اس طرح 50 روپے سے 250 کے اندر اندر آپکے دانتوں کے بڑے سے بڑے مرض کا علاج ہو جائے گا۔

لاہور میں اس وقت تعلیم کا کاروبار اپنے عروج پر ہے۔ جگہ جگہ کھمبیوں کی طرح قائم ٹیوشن سنٹرز بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔یہ سوشل ویلفیئر کی ایک عظیم مثال ہے۔ یہ کاروبار امداد باہمی کے زریں اصولوں پر قائم و دائم ہے اور روز افزوں ترقی کر رہا ہے۔ اکیڈمی مالکان کا سلوگن یہ ہے کہ
"آپ ہمارے گلے میں نوٹوں کے ہار ڈالیں ہم آپکے بچوں کے گلے میں تعلیم کا پٹہ ڈالیں گے"۔


اگر آپ کم انویسٹمنٹ میں کوئی اچھا کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور "بزنس میں سب جائز ہے" کے رہنما اصول پر بھی یقین رکھتے ہیں تو دیر مت کیجئے یہ کاروبار آپکے لئے بے حد مفید ثابت ہوگا۔ یہ کاروبار بھی دور حاضر کے دوسرے کاروباروں کی طرح   "ڈراؤ اور کماؤ" کی پالیسی پر چلتا ہے۔ یعنی اگر آپ والدین کو انکے بچوں کے مستقبل کے بارے میں ڈرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں  تو آپکا کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کریگا۔ آپ بے فکر ہو کر کام شروع کریں اپنی صلاحیتوں کا بروئے کار لاتے ہوئے اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کریں  اور اپنی پہلی کمائی سے ہمیں مٹھائی بھیجنا مت بھولئے گا۔ 

4 تبصرے:

  1. آپ نے حکمنامہ لکھ رکھا ہے ”ایک تبصرہ شائع کریں“۔ نافرمانی کی مجال نہیں اسلئے حاضرِ خدمت ہے ایک تبصرہ ۔
    یہ پکی بات ہے کہ لاہور لاہور ہے اس کی مثال مجھے نہ پاکستان میں ملی اور نہ دساور میں ۔ میں اس سے متفق نہیں کہ "کسی لاہوری سے رستہ مت پوچھنا" کیونکہ میں نے جب بھی راستہ پوچھا اچھی طرح اور درست راستہ سمجھایا گیا ۔ گوگل میپ میں کیوں ڈالنا چاہتے ہیں ؟ پہلے ہی بہت پیدل چلنے والے گاڑیوں کا شکار ہوتے ہیں ۔ باقی سوائے سڑک پر پیدل چلنے کے خدشہ کے جو خصوصیات آپ نے لکھی ہیں وہ ہر شہر میں پائی جاتی ہیں

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. حکم نامہ نہیں ہے جی درخواست ہے۔
      جی لاہور واقعی لاہور ہے۔ یہ ایک عام رائے ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے۔ باقی ہر جگہ کی طرح یہاں بھی اچھے برے ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ لاہور پر بلاگ لکھنے کا مقصد لاہور والوں کی دل آزاری نہیں بلکہ اظہار محبت ہے :)

      حذف کریں
  2. خوب بہت خوب :)
    پچھلے ایک سال سے میں بھی لاہور رہ رہا ہوں اور واقعی لاہور لہور ہے! اسکا اظہار اپنے بلاگ میں بھی کیا تھا، یاد تازہ کردی آپ نے :)

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ جی :)
      فیر تو آپ وی متاثرین لہور میں شمار ہوتے ہیں

      حذف کریں

بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ