جمعرات، 9 مئی، 2013

جب ہم بھی لیپ ٹاپ کے حقدار ٹھہرے (پہلی قسط)


دسمبر 2012 میں جب ہم اپنے مڈ ٹرم ایگزامز سے فارغ ہوئے ہی تھے اور  شہباز شریف سے مایوس ہو کے  دل ہی دل میں  اپنا لیپ ٹاپ خریدنے کا پختہ ارادہ بھی کر چکے تھے ۔ تب ہمیں ایک ہمدرد دوست نے مشورہ بلکہ نصیحت کی کہ تھوڑا انتظا ر کر لو شائد لیپ ٹاپ مل ہی جائے۔ لیکن ہم نے تو اتنی بڑی امید کبھی خود سے نہیں لگائی تھی یہ توسیاستدان تھے نہلے پہ دہلا یہ کہ تھے بھی شریف جن سے ہمیں اپنے انتہائی بچپن سے ہی شدید نفرت تھی۔ لیکن خیر ہم نے  عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتظار کرنا مناسب سمجھا۔
چند دن بعد دوسرے ڈیپارٹمنٹس کے سٹوڈنٹس سے یہ خبریں  سننے کو ملیں کہ 14 دسمبر کو لیپ ٹاپ ملنے ہیں ۔اس خبر کو ہم نے مذاق ہی سمجھا اور جب اگلے دن ایڈمن آفس سے اس خبر کی تصدیق کی کوشش کی تو وہ جناب ہماری طرف یوں دیکھنے لگے جیسے ہم نے کوئی مزاحیہ بات کردی ہو۔پھر فرمانے لگے کہ ابھی ہمیں گورنمنٹ  کی طرف سے ایسا کوئی نوٹس نہیں ملا۔یہ سننا تھا کہ ہمارے خواب چکناچور ہو گئے اور ہم "دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے" ٹائپ گانے اور شہباز شریف کے خلاف بیانات اور انٹرویو سن کر اپنا غم غلط کرنے کی کوششیں کرنے لگے۔
 اب حالت کچھ یوں تھی کہ ایک طرف ہوسٹل میں موجود دوسرے ڈیپارٹمنٹس کے لڑکے ہمیں ڈرائے جا رہے تھے کہ بھائی لیپ ٹاپس کے لئے رجسٹریشن شروع ہو گئی ہے اپنے ڈاکیومنٹس جمع کراؤ ورنہ لیپ ٹاپ نہیں ملنا اور دوسری جانب ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی پر اسرار خاموشی۔ آخر کار یہ خاموشی بھی ٹوٹ ہی گئی اور ہمیں بھی یہ خوشخبری سنا دی گئی کہ لیپ ٹاپ واقعی ملنے ہیں۔ یہ خوشخبری ملنے کے اگلے ہی دن  حکومت پنجاب کی طرف سے ان طلبا کی فہرست جاری ہو گئی جس میں ہمارا نام بھی موجود تھا۔ اور یوں ہمیں یونیورسٹی لائف میں پہلا خوشگوار ہواکا جھونکا نصیب ہوا۔ لیکن ہماری یہ خوشی اس وقت ماند پڑ گئی جب پتا چلا کہ شہباز شریف کی طبیعت ناساز ہے جسکی وجہ سے لیپ ٹاپس کی تقسیم 17 کو ہو گی۔ سچ پوچھیں تو زندگی میں پہلی بار انکی بیماری کا سن کر ہمیں دلی افسوس ہوا۔ اب ہم شدت سے 17 کا انتظار کرنے لگے۔ لیکن "خادم اعلیٰ" کی بیماری نے ہمیں 17 سے 24 پہ لٹکا دیا  ۔ یہ خبر سن کر ہمیں شدید غصہ آیا لیکن بے بسی کے عالم میں ہم دیواروں میں ٹکریں مارنے کے سوا کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ ہم ادھر 20 کو اپنے گھر جانے کا پروگرام بنائے بیٹھے تھے کہ ہماری اماں جان کو 2 ماہ ہو گئے ہماری صورت دیکھے ہوئے وہ بھی اب شدت سے ہمارا انتظار  فرما رہی ہوں گی۔ لیکن "خادم اعلیٰ" کی بیماری نے سارا پروگرام خراب کر دیا۔
اب ہم "خادم اعلیٰ"  کو دعائیں دیتے ہوئے 24 کا انتظار کرنے لگے کہ یا اللہ "خادم اعلیٰ"  کو 24 سے پہلے پہلے صحت عطا فرما اسکے بعد بے شک اوپر اپنے پاس ہی بلا لینا ہمیں کوئی اعتراض نی۔وزیر اعلیٰ کے حق میں ہماری آدھی دعا تو قبول ہو گئی لیکن باقی آدھی  کسی اور کے حق میں چلی گئی۔ ہم جو لاہور میں اپنا سامان باندھ کے بیٹھے ہوئے تھے کہ لیپ ٹاپ ملے اور ہم اپنے گھر کی راہ لیں اور جا کے شوخیاں ماریں کہ ہمیں بھی مفتے کا لیپ ٹاپ ملا ہے۔ لیکن ہنوز لیپ ٹاپ  دور است۔
22 دسمبر کی رات کو خبر ملی کہ بشیر احمد بلور کو دھماکے میں اڑا دیا گیا ہے۔ اس خبر کا ہم پر کوئی زیادہ اثر نہ ہوا ۔ کیونکہ انسان کو ایک دن مرنا تو ہے ہی آج نہیں تو کل۔ ہم نے بس انا للہ پڑھی اور مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کر کے سو گئے۔ صبح  جب 11 بجے کے قریب ہماری آنکھ کھلی تو ہمارے ایک روم میٹ جو شائد ہم سے شدید جیلس بھی تھے( کیونکہ انکا لیپ ٹاپ ابھی دور تھا)  نے مسکراتے ہوئے خبر دی کہ "خادم اعلیٰ"  نے سوگ کا اعلان کرتے ہوئے تقریب کینسل کر دی ہے۔ ہمیں خبر سے زیادہ اسکی مسکراہٹ پر غصہ آیا اور ہم نے اسے سبق سکھانے کے لئے بازو اوپر کئے لیکن کچھ کر نہ سکے ۔ کیونکہ کچھ کرنے میں زیادہ نقصان ہمارا ہی تھا۔ اور اس وقت ہمیں طالبان سےاتنی شدید نفرت محسوس ہوئی کہ  پہلے کبھی نہ ہوئی تھی ۔بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ اتنی سردی میں ایک شریف آدمی کو بغیر کسی وجہ کے مار دیا۔
کر تو ہم یہاں بھی کچھ نہیں سکتے تھے اسلئےہم نے طالبان کو بد دعائیں اور شہباز شریف اور خبر سنانے والے  لڑکے کو برا بھلا کہتے ہوئے رحیم یار خان کا قصد کیا۔ ہمیں اتنا دکھ لیپ ٹاپ کے نا ملنے کا نہیں تھا جتنا اس بات کا تھا کہ ہماری چھٹیاں ضائع ہو گئیں ۔جس مقصد کےلئے ہم چھٹیوں میں بھی لاہور بیٹھے تھے وہ بھی پورا نا ہوا۔نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ جب شام کو ہم اڈے پر پہنچے تب ہمیں  ایک بیہودہ ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں کسی دوست نے پھلجھڑی  چھوڑی کہ لیپ ٹاپس یونیورسٹی پہنچ چکے ہیں اور سیکیورٹی  نہ ہونے کی وجہ سے انہیں رکھا نہیں جا سکتا۔ اسلئے صرف تقریب کینسل ہوئی ہے لیکن لیپ ٹاپ صبح  ڈیپارٹمنٹ سے مل جائیں گے۔اگر ہم ان سیاہ ست دانوں سے واقف نا ہوتے تو  اس ایس ایم ایس پر یقین کر لیتے۔ بھلا اگر تقریب نہیں ہونی تو لیپ ٹاپ کس لئے دینے۔ جس تشہیر نامی بلا کے لئے حکومت اتنا خرچ کر رہی ہے وہ ہی نہ ہو تو لیپ ٹاپس تو ضائع گئے نا۔یہ سوچ کر ہم نے اس ایس ایم ایس والے جوان کو  دل ہی دل میں مغلظات سنائیں اور اللہ کا نام لے کہ بس پہ چڑھ گئے۔ لیکں ایک راز کی بات بھی بتا دوں کہ اندر ہی اندر ہمارا دل بھی ہولنے  لگا تھا کہ خدایا کہیں واقعی ایسا نہ ہو جائے۔ انہونی کو ہونی میں بدلتے ہوئے کونسا دیر لگتی ہے۔ مزید اپنی دل کی تسلی کے لئے ایک اور دوست جو کہ ہماری طرح مایوس ہو کے اپنے گھر جا رہے تھےکو فون کر کے اس ایس ایم ایس کے بارے میں بتایا تووہ بھی ہماری طرح عقلمند نکلے اور ہنسنے لگے۔ انہوں نے تو اس بات پہ ہمارا  چیزا لگانے کی کوشش بھی کی کہ کیسی بات کر رہا ہے  لیکن ہم نے بروقت فون بند کر دیا اور دل کو یہ سوچ کر تسلی دی کہ اول تو ایسا ممکن ہی نہیں اور اگر ہو بھی تو میں اکیلا نہیں ہوں۔ خیر اللہ کو یاد کر تے اور آیت الکرسی کا ورد کرتے ہوئے ہم بس میں بیٹھ گئے۔
ایک دوست جو خیر سے ہمارے روم میٹ بھی تھےلیکن ہماری طرح عقلمند نہیں تھے۔ وہ بھی تقریب کینسل ہونے کی خبر سن کر اپنے گھر فیصل آباد چلے گئے تھے  انہیں بھی اس طرح کا پیغام ملا تو  وہ دوڑے دوڑے لاہور واپس پہنچے تاکہ لیپ ٹاپ بچایا جائے لیکن لیپ ٹاپ کیا بچنا تھا مفت کی خواری مقدر ٹھہری اور کرایہ الگ۔اور انہیں خواری اور لیپٹاپ نہ ملنے سے زیادہ اپنا کرایہ لگنے کا دکھ تھا۔ سارا دن ڈیپارٹمنٹ میں دھکے کھانے کے باوجود جب کسی نے منہ نا لگایا تو خالی ہاتھ واپسی فیصل آباد کی راہ لی۔ انکی خالی ہاتھ واپسی کی خبر سن کر ہماری خوشی دیدنی تھی  کیوں کہ انکو لیپ ٹاپ نہیں ملا تو  یوں ہمارا بھی بچ گیا ۔
(جاری ہے)                                                                                                                                                                                               

8 تبصرے:

  1. یار چھٹیوں والے سٹوڈنٹوں پہ تو ڈبل ڈبل پوسٹیں بنتی ہیں۔ شرم کر سٹوڈنٹ ہو کے چھ مہینے لیٹ پوسٹ کر را
    ساری پوسٹ ہی مزیدار ہے پر "اتنی سردی میں ایک شریف آدمی کو بغیر کسی وجہ کے مار دیا" تو کمال جملہ لکھا یار۔
    ایسی لائٹ قسم کی پوسٹیں لکھنے والوں کا بڑا فقدان ہے بلاگستان میں۔ کل لکھ دیو اگلا حصہ بھی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. حوصلہ افزائی کا شکریہ جناب :)
      بس جی میں کچھ ضرورت سے زیادہ سست واقع ہوا ہوں اسلئے یہ بھی غنیمت میرے لئے اور جس دن مجھے شرم آ گئی اس دن میرا سنسان بلاگ وی آباد ہو جانا
      :)

      حذف کریں
  2. ہاہاہاہا
    بہت ہی اعلیٰ
    یہ یونیورسٹیوں نے ایسے نخرے کیے ہیں ہر جگہ جیسے وی سی صاحب نے اپنے پلوں سے دینا ہو لیپ ٹاپ

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ جناب :)
      بس جی جیلسی وی کسی چیز کا نام ہے ان بیچاروں کو انکی واری خود جو نی ملے جیلس ککڑ کہیں کے :)

      حذف کریں
  3. بہت دلچسپ ہے باقی قسط کا انتظار بھی ہے ۔۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بہت شکریہ جی :)
      اگلی قسط بھی انشاءاللہ جلد ہی :)

      حذف کریں
  4. یار میں تو سسپینس مارے باقی سارا چھوڑ کر آخر میں گیا کہ دیکھوں کہ لیپ ٹاپ ملا یا کہ نہیں لیکن جاری ہے نہ منہ چڑایا ۔۔۔ اب فیس بک پر بتا دیو

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. نا جی اگر بتا دیا تو اگلی قسط کون پڑھے گا فیر :)

      حذف کریں

بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ