اتوار، 5 جون، 2016

اِک شہرِ خموشاں ہے اور چھائی ہے تنہائی

اِک شہرِ خموشاں ہے اور چھائی ہے تنہائی
بھیڑ ہے لوگوں کی اور دل ہے تماشائی

یکطرفہ تکلم ہے خود ہی سے مخاطب ہیں
خود سے بیگانہ ہیں خود ہی سے شناسائی

کشکول ہے ہاتھوں میں دہلیز ہے غیروں کی
پھر پوچھتے ہیں خود سے کیسی ہے یہ رسوائی

دیکھتے ہیں دن میں ان گنت تماشے ہم
دل بجھ تو گیا لیکن بجھتی نہیں بینائی


محمد عبداللہ

پیر، 13 اپریل، 2015

یونیورسٹی میں جشنِ بہاراں کا انعقاد۔ (Spring Festival)

چند روز قبل ایک مہربان کا پیغام موصول ہوا۔ان مہربان کو ہم نے ذمہ داری سونپی ہوئی ہے کہ یونیورسٹی میں کوئی بھی اہم ایکٹیویٹی ہو اس سے ہمیں مطلع کر دیا جائے۔اگر آپ اس اہم ایکٹیویٹی سے مراد کوئی کوئز یا اسائنمنٹ سمجھے ہیں تو فوراً کانوں کو ہاتھ لگائیے اور استغفار کیجئے  کہ آپ ہم سے ایسی توقع رکھتے ہیں ۔اس اہم ایکٹیویٹی سے مراد کوئی فیسٹیول ، فنکشن یا آوارہ گردی پروگرام وغیرہ ہے۔ اس بار ہمیں جو سندیس ملا وہ یہ تھا کہ  یونیورسٹی کی لٹریری سوسائٹی کے زیر اہتمام سپرنگ فیسٹیول کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ اس خبر کوسن کر ہمیں حیرانی بھی ہوئی کہ چونکہ فیسٹیول  لٹریری سوسائٹی منعقد کرا رہی ہے اسلئے شائد کچھ ادب آداب کا اہتمام بھی ہو لیکن ہماری حیرانی رفع کرنے کا انتظام فیسٹیول کے منتظمین پہلے ہی کر چکے تھے ۔ ہماری خواہش تو یہ تھی کہ جشن بہاراں کے ساتھ ساتھ ایک عددچھوٹا سا مشاعرہ بھی رکھ لیا جاتا تو ہم بھی اپنی تازہ اور سڑی ہوئی شاعری سنا کر یونیورسٹی میں مشہور ہو جاتے  شائد اسی بہانے کوئی ایک آدھ لڑکی ہم سے بھی امپریس ہو جاتی اور ہم مزید ڈپریس ہونے سے بچ جاتے۔ مزید یہ کہ تازہ اور سڑی ہوئی کے کمبی نیشن سے قطعی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تازہ سے مراد یہاں تازہ ہی ہے فرنگیوں کی زبان میں جسے لیٹسٹ کہا جاتا ہے اور سڑی ہوئی سے مراد ہماری شاعری کی اور  ہماری طبیعت ہے۔

اس خبر کے ساتھ ہمیں ایک اور ہدایت نامہ ملا  کہ فیسٹول پہ  فرنگیوں کے لباس سے اجتناب کرنا ہے اور روایتی پاکستانی لباس یعنی قمیض شلوار زیب تن کرنا ہے۔ جب ہم نے اپنے کپڑے کھنگالنا شروع کئے تو ہماری سہل پسند طبیعت غیر پارلیمانی الفاظ میں ہڈ حرام طبیعت ہمارا منہ چڑا رہی تھی مطلب گندے کپڑوں کا ڈھیر۔ اس پریشانی کے حل کیلئے ہم نے اپنے دوستوں سے بیک ڈور رابطہ قائم کیا اور اپنی قدرتی مسکین شکل کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ دوست ہی کیا جو ضرورت کے وقت کام آ جائے ویسے بھی ہم اپنے ہی جیسے دوست رکھتے ہیں جو کہ ضرورت کے وقت کمر پہ لات رسید کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس مشکل وقت میں ہم نےاپنی مدد آپ کا فیصلہ کیا اور گندے کپڑوں کے ڈھیر سےنسبتاً  کم گندے کپڑے تلاش کرنا شروع کر دئیے۔تھوڑی سی مشقت کے بعدہم اپنے لئے لباس منتخب کرنے کی کوشش میں کامیاب ہوہی گئے ۔

مقررہ دن پر ہم صبح جلدی اٹھ بھی گئے جسے دیکھ کر ہمارے روم میٹ حیران رہ گئےکیونکہ ہاسٹل کی رفاقت کے دوران کبھی انہوں نے ہمیں صبح جلدی اٹھتے نہیں دیکھا تھا۔ انکے لئے مزید حیرانی کا سامان یہ تھا کہ اس دن ہم نے غسل بھی فرما لیا  انہوں نے بے شرم ہو کر یہ پوچھ بھی لیا کہ بھائی خیر تو ہے؟ اب انہیں وجہ کیا بتاتے کہ شائد کوئی لڑکی ہم سے بھی امپریس ہو جائے اور ہم ڈپریس ہونے سے بچ جائیں۔اپنے تئیں پرنس چارلس بن کر جب ہم یونیورسٹی پہنچے تو گارڈ صاحب نے ہمیں داخلے کے مقام پر روک لیا کہ آپ کون؟
"جی خاکسار کو محمد عبداللہ دی گریٹ کہتے ہیں"  ہم نے بیک وقت عاجزی کا مظاہرہ کرتے اور اکڑتے ہوئے جواب دیا۔
"بھائی آؤٹ سائیڈرز کی اجازت نہیں ہے" محترم نے اگلا بم پھاڑا۔
"جناب مابدولت کو اس یونیورسٹی میں داخلہ لئے تین سال ہو نے والے ہیں"
"مجھے بھی یہاں جاب کرتے تین سال ہی ہوگئے ہیں میں نے کبھی آپکو نہیں دیکھا"
"اگر آپ نے نہیں دیکھا تو اس میں ہمارا کیا قصور جائیں آپ آنکھوں کے ڈاکٹر سے رابطہ کریں" اس پر محترم نے ہمیں یوں گھورا جیسے قصائی بکرے کو گھورتا ہے اور ہم نے بھی جواب میں انہیں بکرے جیسی معصوم شکل بنا کر دکھا دی۔
قبل اسکے کہ یہ بحث طول پکڑتی ہمارے مہربان جو ہمیں گارڈ سے الجھتا دیکھ رہے تھے اندر سے تشریف لائے اور گارڈ کو ہمارے سٹوڈنٹ ہونے کی ضمانت دی اور ہمیں سٹوڈنٹ کارڈ دکھانے کی ہدایت کی جو کہ خوش قسمتی سے اس وقت ہمارے پاس موجود تھا۔ تب ہمیں اندر جانے کی اجازت ملی  لیکن داخلے کی اجازت دینے کے باوجود گارڈ صاحب کی آنکھوں میں بے یقینی کے سائے  لہرا رہے تھے ۔

اندر داخل ہوئے تو یہاں تو ہر چیزہی نرالی تھی ہر طرف رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ سامنے سٹیج پر ولید ملک صاحب جو کہ فیسٹیول کے منتظمین میں سے تھے مائیک پہ اپنا گلا پھاڑ رہے تھے جس میں سیاستدانوں کے بجلی دینے کے وعدوں بلکہ لاروں کی طرح  سٹوڈنٹس کو بتا رہے تھے کہ کہیں نہ جائیں ابھی یہاں ایک  سیلیبرٹی (Celebrity) کی پرفارمنس ہوگی۔ یہ دلاسہ دینے کے بعد وہ  ایک لوکل گلوکار مطلب یونیورسٹی کے ایک سٹوڈنٹ کے ہاتھ میں مائیک تھما گئے تاکہ وہ اپنی آواز کا جادو جگاتے رہیں لیکن جادو اتنا زودِ اثر تھا کہ وہاں آئے ہوئے بھی بھاگنے کی تیاری میں نظر آئے۔ تھوڑی دیر بعد جب سب مایوس ہو چلے تھے تو دوبارہ تشریف لائے اور ایک بار پھر دلاسہ دیا کہ بس ابھی آئے اور تقریب کے سپانسرز کی طرف سے انعامات کا اعلان کرنے لگے جو جنسی تفریق کا شاندار نمونہ تھے مطلب سارے انعامات صرف لڑکیوں کیلئے تھے۔

اردگرد کا سرسری جائزہ لینے کے بعد ہم سب سے پہلے بورجان کے سٹال کی طرف بڑھے جہاں مفت ممبر شپ لینے کی سہولت موجود تھی۔یہ تو ممکن ہی نہیں کہ مفت خوری کا موقع ہو اور ہم اس سے فائدہ نہ اٹھائیں اسلئے ہم نے بھی ڈسکاؤنٹ حاصل کرنے کیلئے ممبرشپ کارڈ لے لیا۔ اسکے بعد ہم نے ایک ایک کر کے سٹال دیکھنا شروع کئے۔ شروع میں کھانے پینے  کی اشیاء کے سٹال تھے ۔جن کی طرف ہم للچاتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے رہے اور ذہن میں ان لوگوں کی لسٹ بنانے لگے جو ہمیں کچھ کھلا پلا سکیں۔ چونکہ ہم ناشتہ کر کے آئے تھے اسلئے ہم مزید کھانے کی عیاشی کیلئے پیسے خرچ کرنے پر تیار نہیں تھے اور عادت کے مطابق مفت خوری کی کوشش کرنا ہمارا فرض تھا۔ تھوڑا سا آگے ایک سٹال پر خواتین کے بناؤ سنگھار کا سامان موجود تھا لیکن ہمیں یہ دیکھ کر شدید  حیرانی ہوئی کہ وہ تقریباً  ویران ہی پڑا تھا۔مزید آگے ایک سٹال پر سیلفی بخار اپنے جوبن پر تھا  وہاں رش دیکھ کر سمجھ آئی کہ پچھلا سٹال ویران کیوں پڑا ہے۔یہاں تھوڑی سی جدت لانے کی کوشش کی گئی تھی اپنی اصل خوفناک شکل کے اوپر مزید خوفناک ماسک چڑھا کر تصویریں بنائی جا رہی تھیں اور ساتھ ہی مہندی لگانے کا انتظام بھی موجود تھا۔

مزید آگے بڑھے تو علی مامون بھائی کو کاندھے پے ائرگن اور سر پہ ہیٹ جمائے ہوئے کاؤ بوائے بنے دیکھا۔ اور وہ سامنے ایک بڑے سے ڈبے پر غبارے باندھے دعوت نشانہ بازی دے رہے تھے۔ ہمیں خیال آیا کہ کہیں انہوں نے بھی پٹھانوں کی طرح   بندوق کی نال کو ہلکا سا ٹیڑھا نہ کیا ہو لیکن جب سامنے صرف غبارے نظر آئے تو ہمیں اپنا خیال بدلنا پڑا  کیونکہ وہاں پر زیبِ نشانہ بازی اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے ٹیپ ریکارڈر، ٹارچ، ریڈیو وغیرہ جیسی کوئی چیز نہیں تھی۔ انہوں نے ہمیں بھی نشانہ بازی کی دعوت دی اور ہم اپنی خراب نشانہ بازی کا عملی مظاہرہ کرنے سے کترا گئے۔لیکن جب دل کڑا کر کے قریب پہنچ کے بندوق کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ علی بھائی بھی ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آئے تو انہوں نے نشانہ لینے کیلئے بندوق کی شست (Sight) ہی غائب کردی تھی اور ہم نے اسی بات کو بہانہ بنا کر بندوق انہیں واپس تھما دی کہ ہم خراب بندوق پر نشانہ بازی کر کے اپنا نشانہ خراب نہیں کر سکتے۔

نشانہ بازی کے ساتھ ہی وہاں موجود ایک غیر قانونی جیل وطنِ عجیب میں قانون کی حالت زار کا پتا دے رہی تھی۔ کوئی بھی طاقتور کسی کمزور کو اٹھا کے اس جیل میں ڈال دیتا اور پھر نذرانہ ادا کر کے ہی رہائی ملتی۔ ہمارے ایک دوست نے بھی ہم سے کوئی پراناا بدلہ چکانے کیلئے ہمیں وہاں ڈالنے کی کوشش کی لیکن ہم نے انہیں پہلے ہی بتا دیا کہ ہم اپنی جیب خالی کر کے آئے ہیں اسلئے بعد میں زر ضمانت بھی انہیں ہی ادا کرنا پڑے گا۔ بس ہماری یہی بات ہمیں بچا گئی اور ہمارا ریکارڈ خراب ہونے سے بچ گیا۔وہاں سے جان چھڑائی تو ہمارے ایک دوست نے ہمیں کہا کہ بھائی آ ہی گئے ہو تو منہ دھلوا لو یہاں منہ دھلوانے کا انتظام بھی موجود ہےکب تک گندے پھرتے رہو گے۔ ہمارا تو منہ دھلوانے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن ان کے اصرار پر ہم اس طرف چلے گئے وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ ہم جیسے لوگوں کا منہ با عزت طریقے سے نہیں بلکہ بے عزت طریقے سے دھلوایا جا رہا ہے۔ ٹینٹ میں ایک سوراخ کر کے  وہاں منہ دھلوانے والے کا منہ رکھا جاتا اورپھر  کچھ لڑکے اس  پر  پانی پھینکتے۔ یہ دیکھ کر ہم نے اپنے دوست سے کہا کہ بھائی ہمیں گندا رہنا تو منظور ہے پر بے عزتی نہیں۔

اس دوران ہمیں کھانے پینے کی اشیاء کی اشتہاء انگیز خوشبو بھی بے چین کر رہی تھی ۔ کوئی اور تو ہمارے ہاتھ نہیں لگا ہم نے انہی دوست کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی ہماری  مسکین شکل کے پیچھے چھپی ہوئی چالاکیوں سے واقف تھے۔ بڑی دیر کے بعد انہوں نے ہامی بھری اور باقی سب کچھ چھوڑ کےہمیں لڈو پیٹھیوں والے کی طرف لے جانے لگے کیونکہ وہ  پہلے ایک بار یہ لڈو کھانے کے بعد ہمارے معدے کی ہونے والی حالت سے واقف تھے۔ ہم نے بڑا زور لگایا کہ پیزا یا باربی کیو کی طرف چل پڑیں لیکن انہوں نے ہماری ایک نہ چلنے دی  اور لڈو کھلانے پر مصر رہے لیکن لڈو دیکھ کر تو ہماری وہ حالت ہو جاتی ہے جو بکرے کی چھری دیکھ کر ہوتی ہے۔

اردگرد نظر دوڑائی تو ایک سائیڈ پر ڈبل شاہ براجمان نظر آئے ۔ وہاں سب سے زیادہ رش نظر آ رہا تھا ۔ اگر محنت مشقت کئے بغیر پیسے ڈبل ہوتے ہوں تو اس سے کون کافر انکار کر سکتا ہے ۔ ڈبل شاہ کے چیلے لوگوں کو گھیر گھیر کر اپنے شاہ صاحب کے پاس لیکر آرہے تھے۔ اسی طرح  ہمیں بھی کچھ چیلوں نے گھیرلیا  اور ہم انکے ساتھ گھسٹتے ہوئے وہاں تک پہنچے۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ کاش ہم بھی اپنی جیب خالی نہ کر کے آتے تو شائد کچھ بھلا ہمارا بھی ہو جاتا۔ خالی جیب کے ساتھ جب وہاں کا جائزہ لیا تو اپنی کنجوس ترین طبیعت کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکے کیونکہ صبح سے اس وقت تک کوئی بھی اپنے پیسے ڈبل نہیں کروا سکا تھا۔ اور سننے میں آیا ہے کہ وہاں سب سے زیادہ پیسے ڈبل شاہ نے ہی کمائے۔

چونکہ تہوار جشن بہاراں کا تھا اسلئے نئی نسل کو پرانی ثقافت سے روشناس کرانے کیلئے اور ملک کے حالات کے پیش نظر مستقبل کی تیاری کیلئے بگھی اور گدھا گاڑی  کی سواری کا انتظام  بھی کیا گیا تھا۔کون جانے کہ کل کو پٹرول یا گیس ملے یا نہ ملے۔ لیکن ہمیں ایک اعتراض ضرور ہوا کہ چلو بگھی تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اتنے سارے تعلیم یافتہ گدھوں کے بیچ کسی گدھے کو لانے کی ضرورت کیا تھی بیچارہ یونہی احساس کمتری کا شکار ہوتا کہ وہ پڑھ لکھ نہیں سکااور پڑھائی نہ کر سکنے کی وجہ سے پڑھے لکھے گدھے اس پر سواری کر رہے ہیں۔ لیکن سچ پوچھیں تو ہمیں گاڑیوں پر پھرنے والے تعلیم یافتہ گدھوں کو اصلی گدھے پر سوار دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہوئی۔


اس دوران کنسرٹ بھی چلتا رہا اور یکے بعد دیگرے منتظمین شائقین کو کسی سیلیبریٹی کی آمد کا مژدہ بھی سناتے رہے۔ بڑی سکرین پر فیفا کھلانے کا انتظام بھی موجود تھا اور ڈارٹس بھی چل رہی تھی۔  آخر کار فیسٹیول کے اختتام پر نعمان علی اپنے بینڈ یونٹ فائیو کے ساتھ تشریف لائے اور حاضرین کو اپنی پرفارمنس سے محظوظ کیا چونکہ ہمیں یہ گلوکار کچھ زیادہ پسند نہیں اسلئے ہم سب کو ناچتا گاتا چھوڑ کے واپسی کیلئے نکل پڑے۔

اتوار، 31 اگست، 2014

چوہدری صاحب

چوہدری صاحب ہماری چنڈال چوکڑی کے سب سے اہم اور خاص الخاص رکن ہیں۔ہمارے جان من تو ہیں ہی لیکن جان محفل بھی ہیں۔ (براہ مہربانی جان من سے ہمیں پشاری پٹھان نہ سمجھا جاوے)۔ انکے بغیر محفل کا تصور یوں ہے جیسے زبان کے بغیر عورت۔ محفل میں نہ ہوں تو حاضرین بوریت سے مر جائیں اگر ہوں تو انکی باتیں سن کر۔ اپنے  نام کے ساتھ جناب محترم کا لاحقہ خود ہی لگا لیتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ عزت انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے دوسروں کے سامنے  اپنی عزت تب تک کرو جب تک دوسرے لوگ نہ کرنے لگ جائیں۔بلا کے خوش مزاج ہیں ۔ اپنی بے عزتی پر بھی خفا ہونے کی بجائے خوش ہوتے ہیں ۔مشہور و معروف ہستی ہیں اور مزید شہرت کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔اس میدان میں میرا جی کو آئیڈئل سمجھتے ہیں۔  نا صرف آئیڈئل سمجھتے ہیں بلکہ انکی طرح انگریزی بھی بولتے ہیں۔ خوبصورت بھی ہیں اسلئے بچپن میں بوائیز سکول کے فنکشنز میں لڑکی کا رول عموماً انہیں ہی ملتا تھا۔

ذات کے ارائیں ہیں لیکن دل کے کیا ہیں یہ کوئی نہیں جانتا شائد خود بھی نہیں۔ انکے نام کا لازم و ملزوم حصہ چوہدری ہے۔ اگر انہیں  چوہدری کے بغیر مخاطب کیا جائے تو اسے گالی تصور کرتے ہیں اور ایسی بدصورت عورت کی طرح روٹھ جاتے ہیں جس کی خوبصورتی کی تعریف نہ کی گئی ہو۔ مخمصے کی بات یہ ہے کہ انکے والد صاحب کے شناختی کارڈ پر نام کے ساتھ میاں درج ہے۔ ایک بار ہم  نے ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا کہ  چوہدری صاحب آپکے والد صاحب تو اپنے  نام کے ساتھ میاں لگاتے ہیں پھر آپ چوہدری کیوں؟ فرمانے لگے"آجکل چوہدریوں کا دور ہے اسلئے۔ اور ویسے بھی ہم چوہدری ہیں ہم نے ہر کام ان سے پوچھ کے تو نہیں کرنا"۔ایک بار ایک صاحب انکے سامنے مغلوں کے عروج کا ذکر کر بیٹھے۔ ان صاحب نے مغلوں کی سلطنت اور  جاہ جلال  کا کچھ ایسا نقشہ کھینچا کہ موصوف اس سے بے حد متاثر نظر آنے لگے۔ بعد میں ہم سے مشورہ  کرتے ہوئے فرمانے لگے "کیا خیال ہے مغل نہ ہو جائیں؟"  تب ہم نے سمجھایا کہ  جناب مغلوں کا دور نکل گیا ہے آجکل مغل لوہا کوٹنے اور کاٹنے کا کام کرتے ہیں۔  اسلئے آپ چوہدری پر ہی قناعت کریں  یا کچھ اور سوچیں۔کچھ عرصہ قبل جب موصوف نے ذاتی کاروبار شروع کیا تو انکے وزیٹنگ کارڈ پرانکے نام کے ساتھ جلی حروف میں میاں جگمگا رہا تھا۔ استفسار کرنے پر فرمانے لگے "بھائی آجکل میاں صاحبان کا دور ہے۔ ہمارا ایم این اے میاں، ہمارا وزیراعلیٰ میاں، ہمارا وزیراعظم میاں اور تو اور ہمارے والد صاحب اور دادا جی بھی میاں ہی ہیں تو ہمیں کیا مصیبت پڑی کہ چوہدری بنے رہیں چوہدری تو آجکل ٹکے ٹوکری ہوئے پڑے ہیں اور  بندے ڈھونڈ رہے ہیں۔"

اور لوگوں کی طرف موصوف نے بھی عشق فرمایا اور جی جان سے فرمایا ۔ عشق میں ناکام ہونے پر لوگ عموماً ڈاڑھی بڑھا لیتے ہیں لیکن  موصوف  نے  ناکامی عشق پر پیٹ  بڑھا لیا۔ کسی دور میں محبت میں بھی توحید کے قائل تھے لیکن محبت میں ناکامی کے بعد ا ب بیک وقت  چار محبتوں کے پرچارکر ہیں۔ فرماتے ہیں " جب اسلام میں بیک وقت چار شادیوں کی اجازت بلکہ تاکید فرمائی  گئی ہے تو ہم کیوں  نہ چار محبتیں کریں اب شادی کیلئے محبت کرنا تو ضروری ہے نا" ۔جب محبت میں توحید کے قائل تھے تب بے شمار حسینائیں انکی راہ میں آنکھیں بچھاتی تھیں اور اب انکو دیکھ کے گھبرا جاتی ہیں۔

بچپن ہی سے ذرا خوش خوراک واقع ہوئے ہیں۔ دن میں کم از کم پانچ بار کھانا کھاتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ دنیا کے سارے جھگڑے پیٹ کے ہیں۔اسلئے پیٹ کے معاملے میں نو کمپرومائز۔ کھانے میں مفتا  پسند کرتے ہیں اور پینے میں ہر وہ چیز جو انہیں چاند پہ پہنچانے میں مددگار ثابت ہو۔انکا قول ہے  کہ جہاں سے بھی مفت کھانے کو ملے کھا لو یہ اللہ کی دین ہوتا ہے اور اس سے انکار کفران نعمت۔ ایک بار ایک دوست کے کچھ پیسے ایک صاحب دبائے بیٹھے تھے  ۔ وہ دوست اپنے پیسے برآمد کرانے  کیلئے موصوف کو ساتھ لے گئے تاکہ کچھ رعب پڑ سکے۔ان صاحب  نے اگلا بہانہ لگانے کے ساتھ ہی چائے  کی آفر کردی اور چوہدری صاحب اپنے آنے کا مقصد فراموش کر کے چائے نوش فرمانے بیٹھ گئے۔

پرفیومز اور عطریات کے بے حد شوقین ہیں  اور اس معاملے میں شاہانہ مزاج رکھتے ہیں ۔ جو خوشبو انہیں پسند آ جائے وہ ضرور خریدیں گے چاہے دس گنا قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ پیسے کو ہاتھ کا میل سمجھتے ہیں اور کبھی صابن سے ہاتھ نہیں دھوتے۔ نہاتے اسلئے نہیں کہ کہیں باڈی سپرے نہ اتر جائے۔ کپڑے اسلئے ہفتہ بھر نہیں بدلتے کہ انکی لگائی ہوئی خوشبو ہفتہ بھر کپڑوں سے نہیں جاتی۔ بنیان پہننے کا تکلف اسلئے نہیں کرتے کہ باڈی سپرے کی خوشبو نہ روک لے۔شوقین مزاج تو ہیں ہی اسلئے ڈانس سے بھی رغبت ہے۔ پرائی شادیوں میں مفت میں ڈانس کرتے ہیں اور جاننے والوں کی شادی میں پیسے لیکر۔ ڈانس بھی ایسا غضب کا کہ نرگس بھی انکے سامنے پانی بھرتی نظر آئے ۔  کالج کے فنکشن میں ایک بار اسٹیج انکے ڈانس کی تاب نہ لاتے ہوئے ٹوٹ گیا تھا۔

لوگ تبلیغی جماعت کے ساتھ جاتے ہیں موصوف جماعت کو اپنے ساتھ لے کر گئے۔ پوری جماعت میں یہ اپنی نوعیت کے واحد آدمی تھے جن سے امیر صاحب  بھی کسی کام سے پہلے  اجازت طلب کرتے۔ جماعت کے ساتھ جانے سے پہلے موصوف سگریٹ کے ساتھ ساتھ جس چیز سے شغل فرماتے وہ پاکستان میں تارا (TARA) یا ہاٹ (HOT) کے نام سے ملتی ہے۔ جب دورے سے واپس آئے تو موصوف کے ہاتھ میں تارا کی بجائے پٹھانوں کی مشہور سوغات  تھی۔  اس سوغات سے آشنا ہونے کے بعد انہیں کچھ بھی پسند نہیں آتا اور موصوف ہر کام سے پہلے اللہ کا نام لینے کے ساتھ ساتھ "چونڈی" بنانا ضروری خیال کرتے ہیں۔اگر کوئی انکے ہاں مہمان آجائے تو پانی سے پہلے اس سے "چونڈی" کا پوچھتے ہیں۔  اس سوغات سے جتنی محبت انہیں ہے اتنی خود پٹھانوں کو بھی نہیں ہوگی۔ اگر کوئی ان کے سامنے چونڈی کہہ دے تو  انہیں غصہ آ جاتا ہے موصوف اسے چونڈی کہنا پٹھانوں کی اس عظیم ایجاد اور خود پٹھانوں کی توہین سمجھتے ہیں اور اس سوغات کو جنتی کشتہ اور چونڈی کو جنتی کشتے کی ڈلی کہتے ہیں۔


بے حد دوست نوازہیں۔ دوستوں کیلئے کچھ بھی کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور دوستوں کے لئے جان  بھی قربان کر سکتے ہیں۔ ایک بار کرکٹ کھیلتے ہوئے انکے ایک عزیز از جان دوست کی لڑائی ہوگئی ارد گرد کھڑے فیلڈرز میں سے کچھ تو رفو چکر ہو گئے اور کچھ مزے سے انہیں پٹتا دیکھنے لگے ۔موصوف باؤنڈری سے بھاگتے ہوئےآئے اور  اپنے دوست کو بچانے کیلئے  اس جنگ میں کود پڑے نتیجتاً دوست کو تو بچا لیا لیکن خود نہ بچ پائے۔ انکے دوست نے بھی موقع غنیمت جان کر فرار ہونے میں عافیت سمجھی اور چوہدری صاحب  سر پر پٹی اور جسم پر نیل لئے گھر پہنچے۔ وہ دن ہے اور آجکا دن موصوف اہنسا وادی ہوچکے ہیں اور  سختی سے گاندھی جی کے فلسفہ عدم تشددپر کاربند ہیں۔ 

جمعہ، 27 جون، 2014

لہور لہور اے

یوں تو لاہور شہر کی تعریف میں بہت سےمقولے اخذ کئے گئے ہیں لیکن ایک جملہ جو لاہور کی ساری خصوصیات کو اپنے اندر سمو لیتا ہے وہ یہی ہے کہ "لہور لہور اے"۔ بزرگوں کے مطابق لاہور کی اس سے جامع اور مختصر تعریف ممکن ہی نہیں ہے۔  اگر آپ لاہور کو کسی سے تشبیہ دینے کی کوشش کریں گے یا اسکی مماثلت تلاش کرنے کی کوشش کریں گے تو آپکو احمق قرار دئیے جانے کا قوی امکان ہے۔یہ اسی طرح ہے جیسے ملکہ الزبتھ اور تندور پہ روٹیاں لگانےوالی مائی میں مماثلت تلاش کرنا۔ اسی پر بس نہیں   پطرس صاحب  لاہور کی تعریف کے ساتھ ساتھ اسکے محل وقوع کے بارے میں بھی ایسا ہی کچھ فرما گئے ہیں۔ فرماتے ہیں
"لاہور لاہور ہی ہے۔ اگر آپکو اس پتے پر لاہور نہیں مل سکتا تو آپکی تعلیم ناقص اور ذہانت فاتر ہے"۔

لاہور کے حکمرانوں کے مطابق لاہور لاہورنہیں رہا بلکہ پیرس بن گیا ہے۔ ایک بار ایک بزرگ بڑے جذباتی انداز میں لاہور کی تعریف فرما رہے تھے ۔ ہم نے یونہی عادت سے مجبور ہو کر چھیڑ خانی کی  اور کہا
"بزرگو! اب لاہور لاہور نہیں رہا اب تو یہ فرنگیوں کا پیرس بن گیا ہے"۔
بزرگوار نے قہر آلود نظروں سے ہماری طرف دیکھا اور لاہور کو پیرس بنانے اور کہنے والوں کے شجرہ نسب میں درستگی کی اور فرمانے لگے۔موا پیرس کبھی بھی لاہور نہیں بن سکتا۔   اسکے بعد پھر پیرس والوں پر ڈارون کے نظریہءارتقا کا اطلاق کیا پھر حکمرانوں پر اپنا غصہ نکالنے کے بعد دانشورانہ انداز میں فرمانے لگے۔
"پتر! لاہور ابھی بھی لاہور ہی ہے۔ یہ جتنا بھی پیرس بنا ہے نا یہ ہمارے بزرگوں کے وقت لاہور میں تھا ہی نہیں "۔

 لاہور صرف پیرس ہی نہیں بنا بلکہ  سال میں ایک بار برسات کے دنوں میں وینس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔  کراچی کی طرح یہاں پر سمندر نہیں ہے اور دریا بھی اب کشتی رانی کی بجائے کرکٹ اور والی بال کھیلنے کے کام آتا ہے۔ اسلئےاگر آپ کشتی رانی کے شوقین ہیں تو آپکو کہیں اور جانے  اور پیسے ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں برسات کے دنوں میں آپ کشتی رانی کا شوق یہیں پر سستے داموں پورا کر سکتے ہیں۔ 

جیسے لاہور لاہور ہے اسی طرح یہاں کے باشندے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ ان جیسی ہستیاں آپکو پاکستان بھر میں کہیں نہیں ملیں گے اور پاکستان سے باہر تو بالکل بھی نہیں۔ہمیں یاد ہے جب ہم نے زندگی میں پہلی بار تنہا سفر کیا تھا تو ہمیں یہ نصیحت فرمائی گئی تھی کہ کسی کے ساتھ زیادہ فری نہ ہونا کسی سے کچھ لیکر نہ کھانا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب ہم نے لاہور کی طرف رخت سفر باندھا تو ہمیں جو واحد نصیحت کی گئی وہ یہ تھی کہ "کسی لاہوری سے رستہ مت پوچھنا"۔

اگر آپ لاہور میں نئے ہیں تو آپکے پاس اچھا سا فون ہونا چاہیے جس میں گوگل میپس کی سہولت موجود ہو۔ اس سہولت کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ آپ لاہوری گردی سے محفوظ رہیں گے دوسرا یہ کہ آپ رکشہ والوں کی تفریح طبع اور اضافی کمائی کا سبب بننے سے بھی بچے رہیں گے۔کیونکہ رکشے والوں کی عقابی نظریں پہچان لیتی ہیں کہ آپ نئے ہیں یا وہ نیا ہے۔ اگر آپکے پاس ذاتی سواری موجود  ہے تو آپ کسی لاہوری کی زندہ دلی کا شکار بننے کی بجائے اس پر انحصار کریں اور اگر آپکے پاس ذاتی سواری موجود نہیں ہے   اور آپ رکشہ سے سفر کرنا چاہتے ہیں تو آپکو چاہیے کہ آپ  پہلے یہ دیکھ لیں کہ آپ نے جہاں جانا ہے وہ اس جگہ سے کتنی دور ہے اس طرح آپ  اعتماد سے بھاؤ تاؤ بھی  کرسکتے ہیں اور رکشے والے کی تفریح طبع سے بھی بچ سکتے ہیں۔

یونہی ایک بار ہمیں کہیں جانا مقصود تھا وقت کی قلت، راستوں اور لوکل ٹرانسپورٹ کے روٹس سے عدم واقفیت کی بنا پر ہم نے آٹو رکشے کو ترجیح دی۔ رکشے والے بھائی صاحب سے بھاؤ تاؤ کرنے کے بعد ہم سوار ہو گئےان صاحب نے تھوڑی دیر بعد ہمیں ایک جگہ اتار دیا۔ ڈھائی سو روپے ان کے ہاتھ پہ دھرنے کے بعد جب ہم نے ادھر ادھر دیکھا تو جگہ کچھ دیکھی بھالی ہوئی محسوس ہوئی۔ تھوڑا سا چلنے اور ادھر ادھر غور کرنے کے بعد پتا چلا کہ وہ بھائی صاحب ہمیں گیڑا دےگئے ہیں۔ ہم پہلے چوک کی ایک جانب کھڑے تھے ڈھائی سو روپے خرچ کرنے کے بعد دوسری جانب۔

 کہتے ہیں "جنے لہور نی ویکھیا او جمیا  ای نی"۔  اس مشہور و معروف مقولے کا مطلب بھی ہمیں لاہور کی سڑکیں پار کرتےہوئے سمجھ آیا جب بیشتر بار ہم لاہور کی کسی گاڑی اور ویگن کے نیچے آتے آتے بچے  اور ہمیں نئی زندگی ملی۔ لاہور کی سڑکوں پر پھرنے سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ اللہ کے ذکر اور موت سے غافل نہیں ہوتے۔ اگر آپکے ساتھ ایسا نہیں ہوتا اور آپ اپنی ہی موج میں چلنے کے عادی ہیں تو آپکو ہوش میں رکھنے کیلئے بسوں اور گاڑیوں کے منحوس کن ہارن بھی پائے جاتے ہیں۔

اگر کبھی عید قربان یا کسی اور موقع پر بھیڑوں بکریوں کو ڈالے میں لدا ہوا دیکھ کر آپکے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ یہ زندہ سلامت منزل مقصود تک کیسے پہنچ جاتی ہیں تو آپ لاہور کی لوکل ٹرانسپورٹ سے استفادہ کریں اور سفر کر کے دیکھیں آپکے سوال کا جواب بھی مل جائے گا اور پریکٹس بھی ہو جائے گی۔ ایک نصیحت نما مشورہ دینا ہمارا فرض ہے کہ کبھی زیادہ مسافروں کو سوار کرنے پر آپ کنڈیکٹر سے الجھئے گا مت ورنہ آپکے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہےاور کچھ بھی ہونے کا انحصار عموماً کنڈیکٹر کی طبیعت پر ہوتا ہے۔ ایک بار ویگن پر سفر کرتے ہوئے جب ہمارا دم گھٹنے لگا تو ہم نے سٹوڈنٹ ہونے کے زعم میں کنڈیکٹر کو بڑھک لگائی کہ اب کسی کو چڑھایا تو تمہیں اتار دیں گے۔ اسکے بعد کی کہانی یہ ہے کہ موصوف نے گاڑی میں جگہ بنانے کیلئے ہمیں ہی اتار دیا اور اتارا بھی ایسی جگہ جہاں پانی بھی میسر نہیں تھا۔

لاہور میں حکماء بھی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ تقریباً تمام حکماء جنسی امراض میں اسپیشلسٹ ہیں۔ شہر میں جابجا لگے اشتہارات اور سائن بورڈز آپکو انکو موجودگی کا یقین دلاتے ہیں اور تقریباً ہر چوک پر ایسے مطب اور دوا خانے قائم ہیں۔  یہ حکماء اور انکی مشہوری کے اشتہارات اتنی کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ اچھا بھلا صحت مند انسان اپنے بارے میں شکوک شبہات کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہر مطب میں مطب کے سائز اور حکیم صاحب کے بنک اکاؤنٹ کے مطابق فیلڈ ایجنٹس کام کرتے ہیں  ۔ انکا کام بسوں میں حکیم صاحب کی تیار کردو معجون  و دیگر ادویات فروخت کرنا ہوتا ہے اور یہ ایجنٹس ہی مطب کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں کیونکہ مطب کی نصف سے زائد کمائی ان کے مرہون منت ہوتی ہے۔ ان حکماء کے درمیان مقابلے کی فضا پائی جاتی ہے اسلئے اشتہار بازی کے ساتھ ساتھ  مریضوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے مختلف پیکجز کا اعلان کیا جاتا ہے۔مثلاً دوائی کے ساتھ ڈیڑھ چھٹانک سانڈھے کے تیل کی فراہمی، دو تولے معجون خاص اور دو مریضوں کے ساتھ تیسرا فری وغیرہ وغیرہ۔

اگر آپ خدانخواستہ دانتوں کے کسی مرض میں مبتلا ہیں اور اسکے مہنگے ترین علاج کی استطاعت بھی نہیں رکھتے تو بھی پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہاں لاہور پھر اپنی باہیں پھیلائے آپکو اپنی آغوش میں لینے کو تیار ہے۔ حکیموں کے دواخانوں کے باہر ہی آپکو سامنے والے تھڑے پر ماہر دندان ساز اپنے پورے سازوسامان مثلاً لکڑی کی کرسی، شیشہ ، ٹارچ والا موبائل، ہتھوڑی، زنبور اور ریگمال کے ساتھ دستیاب ہونگے۔  اس طرح 50 روپے سے 250 کے اندر اندر آپکے دانتوں کے بڑے سے بڑے مرض کا علاج ہو جائے گا۔

لاہور میں اس وقت تعلیم کا کاروبار اپنے عروج پر ہے۔ جگہ جگہ کھمبیوں کی طرح قائم ٹیوشن سنٹرز بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔یہ سوشل ویلفیئر کی ایک عظیم مثال ہے۔ یہ کاروبار امداد باہمی کے زریں اصولوں پر قائم و دائم ہے اور روز افزوں ترقی کر رہا ہے۔ اکیڈمی مالکان کا سلوگن یہ ہے کہ
"آپ ہمارے گلے میں نوٹوں کے ہار ڈالیں ہم آپکے بچوں کے گلے میں تعلیم کا پٹہ ڈالیں گے"۔


اگر آپ کم انویسٹمنٹ میں کوئی اچھا کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور "بزنس میں سب جائز ہے" کے رہنما اصول پر بھی یقین رکھتے ہیں تو دیر مت کیجئے یہ کاروبار آپکے لئے بے حد مفید ثابت ہوگا۔ یہ کاروبار بھی دور حاضر کے دوسرے کاروباروں کی طرح   "ڈراؤ اور کماؤ" کی پالیسی پر چلتا ہے۔ یعنی اگر آپ والدین کو انکے بچوں کے مستقبل کے بارے میں ڈرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں  تو آپکا کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کریگا۔ آپ بے فکر ہو کر کام شروع کریں اپنی صلاحیتوں کا بروئے کار لاتے ہوئے اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کریں  اور اپنی پہلی کمائی سے ہمیں مٹھائی بھیجنا مت بھولئے گا۔ 

منگل، 27 مئی، 2014

پاکستانی اداروں کا مختصر تعارف

ہماری آج کی پوسٹ میں پیش خدمت ہے وطن عزیز کے چند اہم اداروں کا مختصر تعارف۔ ہم ان اداروں کے نام اور کام پر مختصراً روشنی ڈالیں گے۔ ہماری یہ تحریر ان لوگوں کے لئے ہے  جو پاکستانی اداروں سے زیادہ واقف نہیں۔  چلئے وقت ضائع کئے بغیر ہم ان اداروں کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
:نیب
یوں تو یہ محکمہ انسداد بدعنوانی کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن اس محکمے کی گراں قدر خدمات پر یار لوگ اسکومحکمہ امداد بدعنوانی سے یاد کرتے ہیں۔ اس محکمے کا کام کرپشن کے ثبوت مٹانا ہے۔ یہ محکمہ بڑے پیمانے پر کرپشن کے مواقع فراہم کرتا ہے اور جو اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے اور چھوٹی کرپشن تک محدود رہے اسکو سزا دیتا ہے تاکہ وہ آئیندہ یہ حرکت نا کرے اور کرپشن کرنے والوں کی تعداد  میں قرار واقع کمی ہو سکے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس محکمے کا مشن معاشرے سے کرپٹ افراد کو کم کرنا کیونکہ کرپشن اور کرپٹ افراد ایک دوسرے کے راست تناسب ہوتے ہیں۔

:ٹیکس
 اس ادارے کا کام لوگوں سے ٹیکس کی وصولی ہے لیکن وطن عزیز کے مخدوش حالات کے پیش نظر یہ ادارہ لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے کہ وہ کس طرح کم پیسوں میں زیادہ ٹیکس سے بچ سکتے ہیں۔ یہ ادارہ پوری تندہی سے اپنے کام میں سر گرم عمل ہے۔ اب تک یہ محکمہ ملک کے کئی مستحق اور نادار لوگوں کو بڑے پیمانے  پر ریلیف مہیا کر چکا ہے۔ اس ادارے کا مشن ٹیکس فری سوسائٹی کا قیام ہے۔

:کسٹم
یہ محکمہ بھی لوگوں کو اپنی استطاعت سے بڑھ کر ریلیف مہیا کر رہا ہے۔ اس ادارے کے ملازمین کسٹم کی ذمہ داریاں سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم قصائی کا کام بھی کرتے ہیں اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار مفت میں کھال اتارنے کا کام بڑی تندہی سے کرتے ہیں۔ جو کہ مہنگائی کے اس دور میں بہت بڑی خدمت ہے۔

:واپڈا
اس محکمے کا کام لوگوں کو بروقت بلوں کی ترسیل کرنا ہے اور انہیں لوڈشیڈنگ کے دورانیے اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی تواریخ کے بارے میں تازہ ترین معلومات فراہم کرنا ہے۔ نیز یہ محکمہ ہر صوبے میں بجلی کے تاروں میں پڑنے والے کنڈوں کی تعداد اور تفصیل بحساب حلقہ بھی بتاتا ہے۔ اگر آپ گھریلو اور کمرشل استعمال کیلئے کوئی پیکج چاہتے ہیں تو وہ بھی محکمہ آپکو مہیا کرتا ہے۔ گھریلو استعمال کیلئے آپ میٹر ریڈر اور لائن مین سے رابطہ کر اس سے چائے کے کھوکھے پر میٹنگ کر سکتے ہیں اور کمرشل کیلئے آپ کسی اچھے ہوٹل میں کسی آفیسر سے میٹنگ کر کے پیکج لے سکتے ہیں۔

:پی آئی اے
 باکمال لوگ لاجواب سروس۔ یہ سروس واقعی لاجواب ہے اور اسکو چلانے والے اس سے بڑھ کر باکمال جو انتہائی نامساعد حالات کو باوجود اسکو بند نہیں ہونے دے رہے یہ محکمہ صحیح معنوں میں انسان دوست واقعی ہوا ہے اگر آپ بے روزگار ہیں اور زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں تو یہ محکمہ آپکو اپنی آغوش میں لے لے گا آپ صرف میٹرک کر کے پائلٹ بھی بھرتی ہو سکتے ہیں اور اگر آپکی قسمت تھوڑی سی اچھی ہو تو ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر بھی لگ سکتے ہیں۔ یہ محکمہ دنیا بھر کے گراؤنڈ طیارے خرید کر استعمال میں لاتا ہے جس نئے طیارے کے پیسے بچ جاتے ہیں۔ اس کفایت شعاری کی وجہ سے خزانے پر زیادہ بوجھ نہیں پڑتا۔

:ریلوے
یہ محکمہ بھی ایک سابق درویش صفت وزیر کی وجہ سے درویشانہ روش اختیار کر چکا ہے۔ اسکے اثاثے لوگ مفت میں استعمال کر رہے ہیں لیکن یہ چندہ اور خیرات پر ہی اپنا گزارہ کر رہا ہے۔ یہ لوگوں کو کم پیسوں میں محفوظ چھت مہیا کرتا ہے اگر آپکو کرایہ نہ دینے یا کسی اور وجہ سے مالک مکان اپنے گھر سے نکال چکا ہے تو آپ اپنا سامان لیکر اسٹیشن پر کھڑے کسی ڈبے میں بسیرا کر سکتے ہیں اور اگر آپ سیرو سیاحت کے شوقین بھی ہیں تو ایک ٹکٹ خرید لیں چند سو کلو میٹر تو آپ مہینہ بھر میں پھر ہی لیں گے یوں آپکا کرایہ بھی بچ جائے گا رہنے کی جگہ بھی اور لگے ہاتھوں سیر بھی۔

:پاسپورٹ
یہ محکمہ صحیح معنوں میں آپکے دل میں وطن سے محبت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ اگر آپ باہر جانے کی خواہش لئے پاسپورٹ بنوانے جاتے ہیں تو وہاں درپیش حالت دیکھ کر آپکی باہر جانے کی خواہش دم توڑنے لگتی ہے لیکن اگر آپ ضرورت سے زیادہ ڈھیٹ ثابت ہوئے ہیں تو آپکا کوئی علاج نہیں۔ اسلئے اپنا ملک چھوڑنے کی سزا کے طور پر آپکی اعلیٰ قسم کی ورزش کرائی جاتی ہے لیکن اگر آپ لمبی لمبی لائنوں میں نہیں لگ سکتے تو آپ کسی خدائی فوجدار کو پکڑ کر اسے تھوڑا سا نذرانہ دیں تو آپکا کام تھوڑی ہی دیر میں ہو سکتا ہے لیکن ساتھ میں آپکو لائن میں لگے افراد کی گالیاں بھی سننا پڑیں گی۔ لیکن انکی فکر آپ مت کریں ڈھیٹ پن کا مظاہرہ تو آپ پہلے ہی کر چکے ہیں تھوڑا سا اور سہی۔

:رویت ہلال
یہ محکمہ چاند دیکھنے کا کام کرتا ہے اور سال میں ایک بار چاند چڑھاتا بھی ہے۔ اس محکمے اور خیبر پختونخواہ کے پٹھانوںمیں اٹ کتے کا ویر ہے ۔ اس محکمے میں چاند دیکھنے پر ایسے دوراندیش افراد کو مامور کیا جاتا ہے جو اپنے سامنے پڑی وی چپل بھی نہیں دیکھ پاتے۔ انکی قریب کی نظر عام طور پر کام نہیں کرتی لیکن دور اندیشی کے وصف کی بنا پر یہ لوگ اس محکمے میں کام کر رہے ہیں کیونکہ اس محکمے کا سب سے اہم کام یعنی چاند چڑھانا دور اندیشی کے بنا ممکن نہیں۔