پیر، 13 اپریل، 2015

یونیورسٹی میں جشنِ بہاراں کا انعقاد۔ (Spring Festival)

چند روز قبل ایک مہربان کا پیغام موصول ہوا۔ان مہربان کو ہم نے ذمہ داری سونپی ہوئی ہے کہ یونیورسٹی میں کوئی بھی اہم ایکٹیویٹی ہو اس سے ہمیں مطلع کر دیا جائے۔اگر آپ اس اہم ایکٹیویٹی سے مراد کوئی کوئز یا اسائنمنٹ سمجھے ہیں تو فوراً کانوں کو ہاتھ لگائیے اور استغفار کیجئے  کہ آپ ہم سے ایسی توقع رکھتے ہیں ۔اس اہم ایکٹیویٹی سے مراد کوئی فیسٹیول ، فنکشن یا آوارہ گردی پروگرام وغیرہ ہے۔ اس بار ہمیں جو سندیس ملا وہ یہ تھا کہ  یونیورسٹی کی لٹریری سوسائٹی کے زیر اہتمام سپرنگ فیسٹیول کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ اس خبر کوسن کر ہمیں حیرانی بھی ہوئی کہ چونکہ فیسٹیول  لٹریری سوسائٹی منعقد کرا رہی ہے اسلئے شائد کچھ ادب آداب کا اہتمام بھی ہو لیکن ہماری حیرانی رفع کرنے کا انتظام فیسٹیول کے منتظمین پہلے ہی کر چکے تھے ۔ ہماری خواہش تو یہ تھی کہ جشن بہاراں کے ساتھ ساتھ ایک عددچھوٹا سا مشاعرہ بھی رکھ لیا جاتا تو ہم بھی اپنی تازہ اور سڑی ہوئی شاعری سنا کر یونیورسٹی میں مشہور ہو جاتے  شائد اسی بہانے کوئی ایک آدھ لڑکی ہم سے بھی امپریس ہو جاتی اور ہم مزید ڈپریس ہونے سے بچ جاتے۔ مزید یہ کہ تازہ اور سڑی ہوئی کے کمبی نیشن سے قطعی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تازہ سے مراد یہاں تازہ ہی ہے فرنگیوں کی زبان میں جسے لیٹسٹ کہا جاتا ہے اور سڑی ہوئی سے مراد ہماری شاعری کی اور  ہماری طبیعت ہے۔

اس خبر کے ساتھ ہمیں ایک اور ہدایت نامہ ملا  کہ فیسٹول پہ  فرنگیوں کے لباس سے اجتناب کرنا ہے اور روایتی پاکستانی لباس یعنی قمیض شلوار زیب تن کرنا ہے۔ جب ہم نے اپنے کپڑے کھنگالنا شروع کئے تو ہماری سہل پسند طبیعت غیر پارلیمانی الفاظ میں ہڈ حرام طبیعت ہمارا منہ چڑا رہی تھی مطلب گندے کپڑوں کا ڈھیر۔ اس پریشانی کے حل کیلئے ہم نے اپنے دوستوں سے بیک ڈور رابطہ قائم کیا اور اپنی قدرتی مسکین شکل کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ دوست ہی کیا جو ضرورت کے وقت کام آ جائے ویسے بھی ہم اپنے ہی جیسے دوست رکھتے ہیں جو کہ ضرورت کے وقت کمر پہ لات رسید کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس مشکل وقت میں ہم نےاپنی مدد آپ کا فیصلہ کیا اور گندے کپڑوں کے ڈھیر سےنسبتاً  کم گندے کپڑے تلاش کرنا شروع کر دئیے۔تھوڑی سی مشقت کے بعدہم اپنے لئے لباس منتخب کرنے کی کوشش میں کامیاب ہوہی گئے ۔

مقررہ دن پر ہم صبح جلدی اٹھ بھی گئے جسے دیکھ کر ہمارے روم میٹ حیران رہ گئےکیونکہ ہاسٹل کی رفاقت کے دوران کبھی انہوں نے ہمیں صبح جلدی اٹھتے نہیں دیکھا تھا۔ انکے لئے مزید حیرانی کا سامان یہ تھا کہ اس دن ہم نے غسل بھی فرما لیا  انہوں نے بے شرم ہو کر یہ پوچھ بھی لیا کہ بھائی خیر تو ہے؟ اب انہیں وجہ کیا بتاتے کہ شائد کوئی لڑکی ہم سے بھی امپریس ہو جائے اور ہم ڈپریس ہونے سے بچ جائیں۔اپنے تئیں پرنس چارلس بن کر جب ہم یونیورسٹی پہنچے تو گارڈ صاحب نے ہمیں داخلے کے مقام پر روک لیا کہ آپ کون؟
"جی خاکسار کو محمد عبداللہ دی گریٹ کہتے ہیں"  ہم نے بیک وقت عاجزی کا مظاہرہ کرتے اور اکڑتے ہوئے جواب دیا۔
"بھائی آؤٹ سائیڈرز کی اجازت نہیں ہے" محترم نے اگلا بم پھاڑا۔
"جناب مابدولت کو اس یونیورسٹی میں داخلہ لئے تین سال ہو نے والے ہیں"
"مجھے بھی یہاں جاب کرتے تین سال ہی ہوگئے ہیں میں نے کبھی آپکو نہیں دیکھا"
"اگر آپ نے نہیں دیکھا تو اس میں ہمارا کیا قصور جائیں آپ آنکھوں کے ڈاکٹر سے رابطہ کریں" اس پر محترم نے ہمیں یوں گھورا جیسے قصائی بکرے کو گھورتا ہے اور ہم نے بھی جواب میں انہیں بکرے جیسی معصوم شکل بنا کر دکھا دی۔
قبل اسکے کہ یہ بحث طول پکڑتی ہمارے مہربان جو ہمیں گارڈ سے الجھتا دیکھ رہے تھے اندر سے تشریف لائے اور گارڈ کو ہمارے سٹوڈنٹ ہونے کی ضمانت دی اور ہمیں سٹوڈنٹ کارڈ دکھانے کی ہدایت کی جو کہ خوش قسمتی سے اس وقت ہمارے پاس موجود تھا۔ تب ہمیں اندر جانے کی اجازت ملی  لیکن داخلے کی اجازت دینے کے باوجود گارڈ صاحب کی آنکھوں میں بے یقینی کے سائے  لہرا رہے تھے ۔

اندر داخل ہوئے تو یہاں تو ہر چیزہی نرالی تھی ہر طرف رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ سامنے سٹیج پر ولید ملک صاحب جو کہ فیسٹیول کے منتظمین میں سے تھے مائیک پہ اپنا گلا پھاڑ رہے تھے جس میں سیاستدانوں کے بجلی دینے کے وعدوں بلکہ لاروں کی طرح  سٹوڈنٹس کو بتا رہے تھے کہ کہیں نہ جائیں ابھی یہاں ایک  سیلیبرٹی (Celebrity) کی پرفارمنس ہوگی۔ یہ دلاسہ دینے کے بعد وہ  ایک لوکل گلوکار مطلب یونیورسٹی کے ایک سٹوڈنٹ کے ہاتھ میں مائیک تھما گئے تاکہ وہ اپنی آواز کا جادو جگاتے رہیں لیکن جادو اتنا زودِ اثر تھا کہ وہاں آئے ہوئے بھی بھاگنے کی تیاری میں نظر آئے۔ تھوڑی دیر بعد جب سب مایوس ہو چلے تھے تو دوبارہ تشریف لائے اور ایک بار پھر دلاسہ دیا کہ بس ابھی آئے اور تقریب کے سپانسرز کی طرف سے انعامات کا اعلان کرنے لگے جو جنسی تفریق کا شاندار نمونہ تھے مطلب سارے انعامات صرف لڑکیوں کیلئے تھے۔

اردگرد کا سرسری جائزہ لینے کے بعد ہم سب سے پہلے بورجان کے سٹال کی طرف بڑھے جہاں مفت ممبر شپ لینے کی سہولت موجود تھی۔یہ تو ممکن ہی نہیں کہ مفت خوری کا موقع ہو اور ہم اس سے فائدہ نہ اٹھائیں اسلئے ہم نے بھی ڈسکاؤنٹ حاصل کرنے کیلئے ممبرشپ کارڈ لے لیا۔ اسکے بعد ہم نے ایک ایک کر کے سٹال دیکھنا شروع کئے۔ شروع میں کھانے پینے  کی اشیاء کے سٹال تھے ۔جن کی طرف ہم للچاتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے رہے اور ذہن میں ان لوگوں کی لسٹ بنانے لگے جو ہمیں کچھ کھلا پلا سکیں۔ چونکہ ہم ناشتہ کر کے آئے تھے اسلئے ہم مزید کھانے کی عیاشی کیلئے پیسے خرچ کرنے پر تیار نہیں تھے اور عادت کے مطابق مفت خوری کی کوشش کرنا ہمارا فرض تھا۔ تھوڑا سا آگے ایک سٹال پر خواتین کے بناؤ سنگھار کا سامان موجود تھا لیکن ہمیں یہ دیکھ کر شدید  حیرانی ہوئی کہ وہ تقریباً  ویران ہی پڑا تھا۔مزید آگے ایک سٹال پر سیلفی بخار اپنے جوبن پر تھا  وہاں رش دیکھ کر سمجھ آئی کہ پچھلا سٹال ویران کیوں پڑا ہے۔یہاں تھوڑی سی جدت لانے کی کوشش کی گئی تھی اپنی اصل خوفناک شکل کے اوپر مزید خوفناک ماسک چڑھا کر تصویریں بنائی جا رہی تھیں اور ساتھ ہی مہندی لگانے کا انتظام بھی موجود تھا۔

مزید آگے بڑھے تو علی مامون بھائی کو کاندھے پے ائرگن اور سر پہ ہیٹ جمائے ہوئے کاؤ بوائے بنے دیکھا۔ اور وہ سامنے ایک بڑے سے ڈبے پر غبارے باندھے دعوت نشانہ بازی دے رہے تھے۔ ہمیں خیال آیا کہ کہیں انہوں نے بھی پٹھانوں کی طرح   بندوق کی نال کو ہلکا سا ٹیڑھا نہ کیا ہو لیکن جب سامنے صرف غبارے نظر آئے تو ہمیں اپنا خیال بدلنا پڑا  کیونکہ وہاں پر زیبِ نشانہ بازی اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے ٹیپ ریکارڈر، ٹارچ، ریڈیو وغیرہ جیسی کوئی چیز نہیں تھی۔ انہوں نے ہمیں بھی نشانہ بازی کی دعوت دی اور ہم اپنی خراب نشانہ بازی کا عملی مظاہرہ کرنے سے کترا گئے۔لیکن جب دل کڑا کر کے قریب پہنچ کے بندوق کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ علی بھائی بھی ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آئے تو انہوں نے نشانہ لینے کیلئے بندوق کی شست (Sight) ہی غائب کردی تھی اور ہم نے اسی بات کو بہانہ بنا کر بندوق انہیں واپس تھما دی کہ ہم خراب بندوق پر نشانہ بازی کر کے اپنا نشانہ خراب نہیں کر سکتے۔

نشانہ بازی کے ساتھ ہی وہاں موجود ایک غیر قانونی جیل وطنِ عجیب میں قانون کی حالت زار کا پتا دے رہی تھی۔ کوئی بھی طاقتور کسی کمزور کو اٹھا کے اس جیل میں ڈال دیتا اور پھر نذرانہ ادا کر کے ہی رہائی ملتی۔ ہمارے ایک دوست نے بھی ہم سے کوئی پراناا بدلہ چکانے کیلئے ہمیں وہاں ڈالنے کی کوشش کی لیکن ہم نے انہیں پہلے ہی بتا دیا کہ ہم اپنی جیب خالی کر کے آئے ہیں اسلئے بعد میں زر ضمانت بھی انہیں ہی ادا کرنا پڑے گا۔ بس ہماری یہی بات ہمیں بچا گئی اور ہمارا ریکارڈ خراب ہونے سے بچ گیا۔وہاں سے جان چھڑائی تو ہمارے ایک دوست نے ہمیں کہا کہ بھائی آ ہی گئے ہو تو منہ دھلوا لو یہاں منہ دھلوانے کا انتظام بھی موجود ہےکب تک گندے پھرتے رہو گے۔ ہمارا تو منہ دھلوانے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن ان کے اصرار پر ہم اس طرف چلے گئے وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ ہم جیسے لوگوں کا منہ با عزت طریقے سے نہیں بلکہ بے عزت طریقے سے دھلوایا جا رہا ہے۔ ٹینٹ میں ایک سوراخ کر کے  وہاں منہ دھلوانے والے کا منہ رکھا جاتا اورپھر  کچھ لڑکے اس  پر  پانی پھینکتے۔ یہ دیکھ کر ہم نے اپنے دوست سے کہا کہ بھائی ہمیں گندا رہنا تو منظور ہے پر بے عزتی نہیں۔

اس دوران ہمیں کھانے پینے کی اشیاء کی اشتہاء انگیز خوشبو بھی بے چین کر رہی تھی ۔ کوئی اور تو ہمارے ہاتھ نہیں لگا ہم نے انہی دوست کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی ہماری  مسکین شکل کے پیچھے چھپی ہوئی چالاکیوں سے واقف تھے۔ بڑی دیر کے بعد انہوں نے ہامی بھری اور باقی سب کچھ چھوڑ کےہمیں لڈو پیٹھیوں والے کی طرف لے جانے لگے کیونکہ وہ  پہلے ایک بار یہ لڈو کھانے کے بعد ہمارے معدے کی ہونے والی حالت سے واقف تھے۔ ہم نے بڑا زور لگایا کہ پیزا یا باربی کیو کی طرف چل پڑیں لیکن انہوں نے ہماری ایک نہ چلنے دی  اور لڈو کھلانے پر مصر رہے لیکن لڈو دیکھ کر تو ہماری وہ حالت ہو جاتی ہے جو بکرے کی چھری دیکھ کر ہوتی ہے۔

اردگرد نظر دوڑائی تو ایک سائیڈ پر ڈبل شاہ براجمان نظر آئے ۔ وہاں سب سے زیادہ رش نظر آ رہا تھا ۔ اگر محنت مشقت کئے بغیر پیسے ڈبل ہوتے ہوں تو اس سے کون کافر انکار کر سکتا ہے ۔ ڈبل شاہ کے چیلے لوگوں کو گھیر گھیر کر اپنے شاہ صاحب کے پاس لیکر آرہے تھے۔ اسی طرح  ہمیں بھی کچھ چیلوں نے گھیرلیا  اور ہم انکے ساتھ گھسٹتے ہوئے وہاں تک پہنچے۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ کاش ہم بھی اپنی جیب خالی نہ کر کے آتے تو شائد کچھ بھلا ہمارا بھی ہو جاتا۔ خالی جیب کے ساتھ جب وہاں کا جائزہ لیا تو اپنی کنجوس ترین طبیعت کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکے کیونکہ صبح سے اس وقت تک کوئی بھی اپنے پیسے ڈبل نہیں کروا سکا تھا۔ اور سننے میں آیا ہے کہ وہاں سب سے زیادہ پیسے ڈبل شاہ نے ہی کمائے۔

چونکہ تہوار جشن بہاراں کا تھا اسلئے نئی نسل کو پرانی ثقافت سے روشناس کرانے کیلئے اور ملک کے حالات کے پیش نظر مستقبل کی تیاری کیلئے بگھی اور گدھا گاڑی  کی سواری کا انتظام  بھی کیا گیا تھا۔کون جانے کہ کل کو پٹرول یا گیس ملے یا نہ ملے۔ لیکن ہمیں ایک اعتراض ضرور ہوا کہ چلو بگھی تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اتنے سارے تعلیم یافتہ گدھوں کے بیچ کسی گدھے کو لانے کی ضرورت کیا تھی بیچارہ یونہی احساس کمتری کا شکار ہوتا کہ وہ پڑھ لکھ نہیں سکااور پڑھائی نہ کر سکنے کی وجہ سے پڑھے لکھے گدھے اس پر سواری کر رہے ہیں۔ لیکن سچ پوچھیں تو ہمیں گاڑیوں پر پھرنے والے تعلیم یافتہ گدھوں کو اصلی گدھے پر سوار دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہوئی۔


اس دوران کنسرٹ بھی چلتا رہا اور یکے بعد دیگرے منتظمین شائقین کو کسی سیلیبریٹی کی آمد کا مژدہ بھی سناتے رہے۔ بڑی سکرین پر فیفا کھلانے کا انتظام بھی موجود تھا اور ڈارٹس بھی چل رہی تھی۔  آخر کار فیسٹیول کے اختتام پر نعمان علی اپنے بینڈ یونٹ فائیو کے ساتھ تشریف لائے اور حاضرین کو اپنی پرفارمنس سے محظوظ کیا چونکہ ہمیں یہ گلوکار کچھ زیادہ پسند نہیں اسلئے ہم سب کو ناچتا گاتا چھوڑ کے واپسی کیلئے نکل پڑے۔

14 تبصرے:

  1. یار قسم سے پڑھ کر مزا آ گیا۔ P: :P

    جواب دیںحذف کریں
  2. مجھے تو شکل سے ہی آؤٹ سائیڈر لگ رہے ہو آپ ;)

    جواب دیںحذف کریں
  3. Writing humor is always difficult, in particular reporting live situations into own words. But this one is a very well written entertaining article with decent sense of humor. Though some parts of it could be improved but the way you combine your own thoughts with ridicule is appreciable. Second last paragraph is no doubt the best part of the story. Well done Muhammad Abdullah. Keep up the good work.

    جواب دیںحذف کریں
  4. واہ جی واہ، زمانہ تالاب علمی کی یادیں تازہ ہوگئیں، جب ہم بھی اس طرح کے ماحول کا حصہ تھے، قسمین جو مزہ طالبعلم ہونے میں ہے وہ پروفیسری میں بھی کہاں؟؟

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ