پیر، 13 مئی، 2013

جب ہم لیپ ٹاپ کے حقدار ٹھہرے (دوسری قسط)


24 دسمبر کی تقریب ملتوی  ہو جانے کے بعد کوئی اطلاع نہیں تھی کہ اب تقریب کب ہونی۔ ہم بھی گھر میں مزے سے چھٹیاں  بلکہ ایکسٹرا چھٹیاں گزار رہے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ اب وزیر اعلیٰ کب ہماری طرف نظر التفات فرمائیں گے۔4 جنوری کو بعد از نماز جمعہ ہمیں سی۔آر  کا ایس ایم ایس ملا جس میں نادر شاہی حکم جاری کیا گیا تھا کہ آج انڈرٹیکنگ فارم ملنے ہیں اسلئے فوراً یونیورسٹی رپورٹ کرو اور فارم فل کر کے جمع کراؤ۔اب ہم عجیب مصیبت میں تھےکہ پہلے بتایا نہیں اب اچانک دھماکہ کر دیا۔ ہمارے پاس کوئی اڑن طشتری تو ہے نی جو اس پہ بیٹھ کہ منتر پڑھا اور10 گھنٹے کا سفر پل بھر میں طے ہو گیا۔اب لگے ہم یونیورسٹی والوں کو برا بھلا کہنے۔ دل تو گالیاں دینے کا بھی بہت کر رہا تھا لیکن جمعہ کے مبارک دن کا لحاظ کرتے ہوئے خود پر بمشکل قابو پایا۔ اب ہم جلے پاؤں کی بلی کی طرح  چکر کاٹ رہے تھے اورساتھ ساتھ  یونیورسٹی والوں کو فون ملانے کی کوشش کر رہے تھے۔ خدا خدا کر کے انہوں نے کال ریسیو کی اور ہمارا مسئلہ سننے کے بعد ہمیں تسلی دی کہ آپ بے فکر رہیں اورسوموار کی صبح ذرا جلدی آجائیں آپکو فارم مل جائیں گے۔ یہ سن کر دل کو کچھ حوصلہ ہوا اور اگلے دن لاہور کی تیاری پکڑی۔
اتوار کی رات ہم خوشی اور ڈر کے ملے جلے جذبات کے ساتھ سوئے۔ خوشی کی وجہ سے تو آپ اب تک واقف ہو چکے ہوں گے اور ڈر اپنی نشئیوں والی نیندکا تھا  کہ اگر ہم الارم لگانے کے باوجود ہم اٹھ نہ پائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے آگے کا تصور ہی ہمارے لئے روح فرسا تھا۔لیکن خیریت گزری اور ہم صبح ٹائم پر اٹھ گئے اور تیار شیار ہو کے یونیورسٹی پہنچ گئے۔
یونیورسٹی پہنچے تو پتا چلا کہ ہم جیسے اور بھی کئی انڈر ٹیکنگ فارم کے امیدوار ہیں۔ فارم لینے والوں کی تعداد تو کافی زیادہ تھی لیکن فارم دینے والا کوئی نہ تھا۔ کافی انتظار کے بعد ایک ٹیچر ہاتھ میں فارمز کا بنڈل پکڑے نمودار ہوئے اور ہم نے سکھ کا سانس لیا۔طلباء کے ہجوم کو دیکھتے ہوئے انہوں نے سب کو لائن میں لگنے کا حکم دیا ۔ یہاں ہم جیسے سست الوجود آدمی نے بھی پھرتی دکھائی اور لائن میں آگے لگ کے کھڑے ہو گئے تاکہ جلدی باری آئے اور ایک عذاب سے تو جان چھوٹے۔ لیکن ہماری بری قسمت کہ یہاں بھی جنسی تفریق  ہمارا رستہ روکے کھڑی تھی۔ لیڈیز فرسٹ کے عالمی اصول کے مطابق یہاں بھی پہلے لڑکیوں کو موقع دیا گیا جس پر ہمیں غصہ تو بہت آیا لیکن ہم کر ہی کیا سکتے تھے یہ سوچ کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ بس ہم ترسی ہوئی نظروں سے سر کی کی طرف دیکھنے لگے۔ سر   نے بھی شائد ہماری مسکین صورت دیکھ کے ہم پہ ترس کھانے کا فیصلہ کیا اور لیڈیز فرسٹ  کے اصول کو پینڈنگ میں ڈال کے مساوات کو  اصول کو موقع دیا گیا اور یوں ہمیں بھی انڈرٹیکنگ فارم سے نوازا گیا۔
  پنجاب لاء کالج  میں تقریب کا انتظام کیا گیا تھا جہاں ہم مقررہ وقت یعنی 9 بجے تک پہنچ چکے تھے۔وہاں پہنچ کر ہم خادم اعلیٰ جو کہ اب تک ہمارے لئے ظالم اعلیٰ بن چکے تھے کا انتظار کرنے لگے ۔تھوڑی دیر بعد سٹیج سیکرٹری نے خوشخبری سنائی کہ خادم اعلیٰ یہاں آنے کے لئے روانہ ہو گئے ہیں اور بس تھوڑی ہی دیر میں پہنچتے ہی ہوں گے اور یہ تھوڑی دیر کم و بیش  دو گھنٹے بعد ہوئی۔شہباز شریف کے آنے تک سٹیج سیکرٹری ہمیں لطیفوں سے محظوظ کرتے رہے میرا مطلب شہباز شریف کے کارنامے اور تعلیم اور نوجوانوں کے لئے انکی خدمات کا ذکر کرتے رہے۔ اور گاہے بگاہے چلنے والے میوزک اور گانوں نے بھی ہمارا دل خوش کئے رکھا۔ اور کنسرٹ بپا کرنے کے لئے ایک نوجوان سنگر ندیم عباس کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جو کہ ہر جلسے میں خادم اعلیٰ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ مطلب انہوں نے اپنی روزی روٹٰی کا انتظام کر لیا ہوا ہے۔ اگر آپ ندیم عباس سے واقف نہیں تو بتاتا چلوں کہ یہ ندیم عباس وہی ہیں جو انڈیا میں ہونے والے" سُر کشیترا "میں ٹائم سے ہی باہر ہوگئے تھے۔
تقریباً دو گھنٹے کے انتظار کے بعد وزیر اعلیٰ کی تشریف آوری ہوئی  ۔ جنکا استقبال کھڑے ہو کر تالیوں  اور نعروں  سے کیا گیا اور یہاں بھی ہم نے اپنی ازلی کمینگی دکھائی اور مجال ہے کہ ایک بھی تالی بجائی ہو ۔ ایک تو ہمیں یہ صاحب ویسے بھی پسند نہیں اوپر سے طویل انتظار۔ استقبال کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ خیر خادم اعلیٰ صاحب اپنے مخصوص انداز میں بھاگے بھاگے آئے اور سٹیج پہ براجمان ہو گئے۔اور اسکے ساتھ ہی  تقریب کا باقاعدہ آغاز بھی ہو گیا۔چونکہ ہم اسلامی ملک کے شہری اور پیدائشی مسلمان واقع ہوئے ہیں اسلئے سب سے پہلے تلاوت قرآن  کریم اسکے بعد نعت رسولﷺ اور پھر چل سو چل۔ قومی ترانہ، پھر پنجاب حکومت کا ترانہ، تقریرں ،خوشامدیں اور لائیو گانے۔
اس تقریب کے دوران جو خوشامد دیکھنے کو ملی اس نے ہماری حکمرانوں اور انکے چمچوں سے نفرت کو حد درجہ بڑھا دیا۔وہاں مزید بیٹھے رہنے کا دل تو کر نہیں رہا تھا لیکن خود پر جبر کر کے بیٹھے رہے کہ بھائی صاحب چپکے بیٹھے رہو تمہارے غصے سے انکی خوشامد میں کمی نہیں آنی برداشت کرو کیونکہ لیپ ٹاپ تو انہی سے لینا ہے ۔پنجاب یونیورسٹی کی ڈیبیٹنگ سوسائٹی کے صدر نام غالباً حمزہ تارڑ  نے اپنی تقریر اور لفاظی کے فن کو جگاتے ہوئے وزیر اعلیٰ کی شان میں زمین  آسما ن ایک کر دیے۔ یوں لگتاتھا کہ جناب سے بڑا پاکستانی عوام کا خیر خواہ آج تک پیدا ہی نہیں ہوا اور نہ مستقبل میں پیدا ہونے کا امکان ہے۔ پھر وائس چانسلر صاحب کی باری آئی تو وہ بھی خوشامد میں کسی سے پیچھے نہ رہے اور وزیر اعلیٰ کی شان میں ایک لمبی جذباتی تقریر جھاڑ دی۔ یہ شائد انکی پیشہ ورانہ مجبوری بھی تھی کیونکہ وی سی بنے رہنے کے لئے سیاستدانوں کے ساتھ اچھی سلام دعا توہونی چاہیے۔ویسے بھی ہمارے وی سی صاحب کی شہرت سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔ اگر نہیں واقف تواگنور کریں ۔ اللہ آپکا بھلا کرے۔
سب سے آخر میں  خادم اعلیٰ کی لطیفے سنانے کی باری آئی جن پر ہم کچھ دیر تو ہنستے رہے لیکن جب جناب رکے نہیں تو وہی پرانے لطیفے سن سن کے بیزاری ہونے لگی۔وہی گھسے پٹے وعدے، کارناموں کی لمبی اور نا ختم ہونیوالی فہرست، سیاسی مخالفوں کو دھمکیاں  اور خاص طور پہ نوجوانوں کے ساتھ کے دعوے۔ اور سب سے بڑھ کر زرداری کو الٹا لٹکانے اور سڑکوں پہ گھسیٹنے کا عزم۔لیکن ان سب باتوں کے باوجود خادم اعلیٰ صاحب کے باڈی ایکسپریشن اور حرکتیں کمال تھیں جن سے ہم خاصے محظوظ ہوئے۔تقریب کے دوران ہم سٹوڈنٹس کو گارڈ آف آنر بھی دیا گیا ۔جس کے بارے میں وزیر اعلیٰ صاحب کا کہنا تھا کہ اس کے اصل حقدار آپ ہیں۔   اگر اصل حقدار ہم ہیں تو آپ انہیں اپنے ساتھ کیوں لئے پھرتے ہیں۔ہیں جی۔ خیر خدا خدا کر کے وزیر اعلیٰ صاحب کی تقریر  کا اختتام ہوا ۔جس کے بعد چند طلبا ء کو وزیر اعلیٰ نے اپنے ہاتھ سے لیپ ٹاپ دئیے اور فوٹو کھنچوائے۔ اسکے بعد تقریب کا اختتام اایک گانے پر ہوا جس پر وزیر اعلیٰ نے لائیو پرفارم بھی کیا   اور عوام کو ناچنے پہ لگا کے خود گارڈز کے جلو میں فرار ہو گئے۔
 پوری تقریب نے  ہمیں بور ہی کیا لیکن پھر بھی تقریب اتنی بھی بری نہیں تھی۔ کچھ کچھ انجوائمنٹ کا سامان بھی تھا۔ مثلاً سب سے زیادہ مزہ ہمیں گارڈ آف آنر لینے کا آیا۔ وہ پولیس  جس سے ہم صرف گالیاں اور دھکے ہی کھاتے تھے آج وہ ہمیں سیلوٹ کر رہی تھی۔ پھر جناب خادم اعلیٰ کے بیان کردہ لطیفے، الٹی سیدھی حرکتیں اور بھٹو بننے کی ناکام کوششیں کرتے دیکھ کر ہمیں کافی ہنسی آئی اور ترس بھی بہت آیا۔ وزیر اعلیٰ کی تقریر کے دوران سٹیج کے سامنے بیٹھے ہوئے کچھ لڑکے عمران خان کے حق میں نعرے لگا رہے تھے اور کچھ ہی فاصلے پر کھڑا وزیر اعلیٰ کا پروٹوکول آفیسر انہیں گھور رہا تھا ۔ لیکن اسکی گھوریوں   کے باوجود جب وہ باز نہ آئے تو اسکی بے بسی قابل دید تھی۔ سب سے مزیدار چیز تقریب میں چلنے والا میوزک تھا جس نے ہماری بوریت کو کم کرنے میں کافی مدد کی۔ مخالفین کو سیاسی کنسرٹ کے طعنے دینے والوں نے اپنی تقریب میں بھی نوجوان نسل کی تفریح طبع کے لئے فل ٹائم ڈسکو ماحول چلایا ہوا تھا جس سے ہم  خوب لطف اندوز ہوئے۔
تقریب ختم ہونے کے بعد حکم ملا کہ سب اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹس چلیں جائیں لیپ ٹاپ وہیں ملیں گے ۔ہمارا ڈیپارٹمنٹ چونکہ علیحدہ بنا ہوا ہے اسلئے ہمیں آئی۔بی۔آئی۔ٹی ۔ جانے کا حکم ملا۔ وہاں پہنچے تو ڈیپارٹمنٹ کے دروازے یوں بند تھے جیسے  قصر شاہی میں غریب کے لئے بند ہوتے ہیں۔ حکم جاری ہوا کہ ابھی باہر بیٹھ کے انتظار کرو۔ ادھرچونکہ ہم نے صبح کا ناشتہ بھی نہیں کیا   ہوا  تھا اسلئے ہمارا  بھوک سےبرا حال اور اوپر سے انتہائی بورنگ تقریب۔ پارہ تو ہمارا  وزیر اعلیٰ  کے انتظار کے دوران ہی ہائی ہو گیا ہوا تھا اب تو یہ آسمان کو چھونے لگا ایک بار تو دل کیا کہ بھاگ لیں یہاں سے لیکن بھاگنا بھی ہمارے مفاد میں نہیں تھا۔ اسلئے مرتے کیا نا کرتے وہیں گراؤنڈ میں ڈیرے ڈال لئے۔
ڈیڑھ دو گھنٹے کے صبر آزما انتظار کے بعدہماری خوش قسمتی کا  در میرا  مطلب ڈیپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا اور ساتھ ہی لائن میں لگنے کا حکم بونس میں۔ لیکن ہماری قسمت اچھی تھی کہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی لسٹ میں ہماری کلاس سب سے اوپر تھی اسلئے ہماری باری جلد ہی آگئی۔ہم نے جیب سے مڑے تڑے کاغذات نکالے اور انہیں سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لائن میں لگ گئے۔ اب ایک مرحلے پر کاغذات دکھانے کے بعد  لیپ ٹاپ بمعہ بیگ ہمارا منتظر تھا۔ خدا کا شکر کہ وہ مرحلہ بھی بخیر و عافیت طے ہو گیا اور یوں ہم ایک عدد لیپ ٹاپ کے حقدار ٹھہرے۔
لیپ ٹاپ وصولتے وقت ہمارے منہ سے بے اختیار تھیینکس ٹو عمران خان نکلا ۔ اسے وہاں بیٹھے ہوئے صاحب (غالباً کوئی ٹیچر تھے ) جن سے ہم نے لیپ ٹاپ وصولا تھا نے بھی سن لیا اور ہمیں چونک کر دیکھنے لگے۔ ایک لمحے کے لئے تو ہمارا سانس رک  سا گیا  یہ سوچ کے کہ کہیں ہم سے لیپ ٹاپ واپس نا لے لیں کہ جاؤ عمران خان سے لو ۔ لیکن خیریت گزری اور انہوں نے مسکرانے کے سوا کچھ نہ کیا  اور ہم بھی جلدی سے لیپ ٹاپ اٹھا کے باہر کو بھاگے۔باہر آکے ہم نے سر آسمان کی طرف اٹھا کے اللہ کا شکر ادا کیا اور سر نیچے کرنے کے بعد  زیر لب بولے۔
"شباژ ساب! لیپ ٹاپ تے تسی سانوں دے دتا اےپر اسی ووٹ توانوں فیر وی نی دینا۔"
(ختم شد)

4 تبصرے:

  1. انہیں پتہ تھا آپ نے ووٹ نہیں دینا اسی لئے انہوں نے خود ہی کاسٹ کر کے فتح مبین حاصل فرمائی۔۔
    تے ہنڑ ارام اے؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. انہوں نے جوا کھیلا تھا جو زیادہ کامیاب نی ہوا فیر انہوں نے کہا ہونا کہ یہ تو مانتے نی اسلئے ووٹ دینے والا نیک کام ہم خود ہی کر لیتے ہیں
      اپنے حصے کا وی اور دوسروں کے حصے کا وی
      باقی جی ولی لوگ ہیں انکوں تو فرشتوں اور جنوں نے وی ووٹ ڈالے ہونے :)

      حذف کریں
  2. یہ تھوڑی دیر کم و بیش دو گھنٹے بعد ہوئی۔شہباز شریف کے آنے تک سٹیج سیکرٹری ہمیں لطیفوں سے محظوظ کرتے رہے میرا مطلب شہباز شریف کے کارنامے اور تعلیم اور نوجوانوں کے لئے انکی خدمات کا ذکر کرتے رہے۔
    زبرست جی زبردست

    دعا کریں چلتا رہے کیونکہ میرے کئی جاننے والوں کے لیپ ٹاپ داغ مفارقت دے چکے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بہت شکریہ جناب :)
      اوہ خیر میں تو اس لیپ ٹاپ کے ساتھ 4 سال پورے کرنے کا سوچ را تھا لیکن آپ نے ڈرا ہی دیا :O

      حذف کریں

بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ