منگل، 14 اگست، 2012

مجرم میں ہوں


پاکستان بنے ہوئے 65 برس بیت گئے۔ آج جب میں خود سے سوال کرتا ہوں کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جو 65 سال پہلے بنایا گیا تھا؟ جواب میں دل سے ایک درد بھری آہ نکلتی ہے کہ وہ پاکستان اب رہا  ہی کہاں۔ اسکی شکل ، ہیئت اور جغرافیہ تک بدل گیا ہے۔ محبتوں کی گرمی کی جگہ نفرت کی آگ نے لے لی ہے 65 سال پہلے والا جذبہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ اس پر ہماری نا اہلی کی انتہا یہ پاکستان اپنی تخلیق کے صرف 21 برس بعد دولخت ہو گیا۔

میں کبھی کبھی خود سے یہ سوال بھی کرتا ہوں کہ کیا میں آزاد ہوں؟؟ صد افسوس کہ ہر بار  میرا جواب نفی میں ہوتا  ہے۔ میں نے آزاد ملک تو حاصل کر لیا جہاں مین آزادی سے رہنے کے خواب دیکھتا تھا جس کے لئے  مجھے آگ و خون کا سمندر عبور کرنا پڑا۔ لیکن سب خواب چکنا چور ہو گئے۔  میری جان اور مال آج بھی  جاگیرداروں ، وڈیروں اور سرداروں کے قبضے میں ہےاور میرا مذہب، میرا دین اور ایمان  مولوی کے قبضے میں۔ جاگیردار جب چاہتا ہے مجھے جان اور مال کے خوف میں مبتلا کر دیتا ہے اور میرا مولوی جب چاہتا ہے میرے ایمان کو سولی پہ لٹکا دیتا ہے۔

کچھ  دانشور  مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم آزاد ہو۔ میں پھر یہ سوال کرتا  ہوں کہ یہ کیسی آزادی ہے؟؟؟  میں آج بھی انگریز سامراج کا غلام، میں آج بھی بنیے کی مکاری کا شکار،میں آج بھی یہودی ساہوکاروں کہ پنجے  میں پڑا سسک رہا ہوں۔ یہ کیسی آزادی ہے؟؟؟ میں آج بھی اپنے پرانے آقا کے غلامی کے پنجے سے نہیں نکل پایا۔ میں اپنے اس آقا کی جنگ کا ایندھن بن رہا ہوں۔ میں اس جنگ میں لا تعداد شہری اور فوجی شہید کروا چکا ہوں اور کروا رہا ہوں اس جنگ میں میری معیشت کا بھٹہ بھی  بیٹھ گیا ہے اور میں اپنی ڈوبتی معیشت بچانے کے لئے پھر سے عالمی ساہوکاروں کی طرف ترسی ہوئی نگاہ سے دیکھ رہا ہوں۔ دوسرے کی جنگ اب میرے گھر میں داخل ہو چکی ہے اپنے ظالم آقا کی مدد کا خمیازہ میں اب بھگت رہا ہوں۔ میرا اپنا گھر جل رہا ہے۔

میں جب اپنی قوم، اپنے ہم وطن اور ہم مذہب لوگوں کی جانب دیکھتا ہوں  تو انہیں آپس میں دست و گریباں پاتا ہوں۔ اسی آپس کی لڑائی میں میں نے اپنا آدھا ملک گنوا دیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ میں اس ذلت آمیز شکست  سے سبق سیکھتالیکن میں نے تو اس شکست کے بعد خود کو مزید ٹکڑوں میں بانٹ لیا۔ اب میں اور میرے ہم وطن آپس میں الجھے ہوئے ہیں ۔ کوئی دوسرے کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ کوئی سنی ہے تو کوئی شیعہ اور کوئی بریلوی ہے تو کوئی اہلحدیث لیکن مسلمان کوئی نہیں۔ وطن عزیز میں پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان اور مہاجر تو بستے ہیں لیکن پاکستانی کوئی نہیں ملتا۔ کوئی ایک ساتھ متحد ہو کر رہنا نہیں چاہتا۔ کسی کو آزاد بلوچستان چاہیے، کسی کو سندھو دیش اور کسی کو جناح پور۔ کوئی سندھ کارڈ استعمال کرتا ہے تو کوئی جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگاتا ہے۔ اگر نعرہ نہیں لگتا تو پاکستان اور اسلام کا نہیں لگتا۔

اپنے سیاسی اور مذہبی رہنما اب مجھے اپنے دشمن لگنے لگے ہیں جن کا مطمع نظر صرف ذاتی مفاد ، دولت اور عیاشی ہے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ میں جی رہا ہوں یا مر رہا ہوں۔ انہی  کی برکات سے آج میرا چولہا بجھ گیا ہے۔ مجھے کھانے کے لئے بھی کچھ میسر نہیں ۔ میں آج اپنے بوڑھے ماں باپ اور بچوں کا علاج کرانے سے قاصر ہوں۔ میں آج اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہوں۔ سال کے بارہ مہینے مجھ پر ایک عزاب کی مانند گزرتے ہیں۔گرمی ہو تو گرمی سے بے حال اور سردی ہو تو سردی کے قہر کا شکار۔ گرمی میں مجھے ٹھنڈی ہوا میسر نہیں ہوتی اور سردی میں میں گرم لحاف سے محروم ہوتا ہوں۔

لیکن۔۔۔۔

میں جب اپنی اس حالت کی وجہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں  اور دوسروں کے ساتھ ساتھ خود کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرتا ہوں تو ایک بھیانک حقیقت مجھ  پر آشکار ہوتی ہے۔ مجھے اپنی خامیاں اور برائیاں نظر آنے لگتی ہیں مجھے لگتا ہے کہ میرا  مجرم کوئی اور نہیں  میں خود ہوں۔میں ملاوٹ بھی کرتا ہوں، میں ذخیرہ اندوزی بھی کرتا ہوں، اپنے کاروبار یا دوسرے کاموں  میں میں جھوٹ کا سہارا بھی لیتا ہوں۔ میں بجلی اور گیس بھی چوری کرتا ہوں۔ موقعہ ملنے پر دوسروں کو دھوکہ بھی دیتا ہوں ۔   میں رشوت بھی دیتا  ہوں اور رشوت لیتا بھی ہوں۔ میں میرٹ کی بجائے سفارش اور رشوت کو ترجیح دیتا ہوں۔ ہر وہ برائی جو سیاستدانوں اور حکمرانوں میں ہے وہ مجھے خود میں بھی نظر آتی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ میں نوحے کرنے کے ساتھ ساتھ اس گندے اور کرپٹ نظام سے فائدہ بھی اٹھاتا ہوں۔ اگر میں اس نظام اور سے تنگ ہوں تو میں اپنا کام نکلوانے کے لئے کلرک یا افسر کو  رشوت کیوں دیتا ہوں؟   میں اگر اپنے مذہبی رہنماؤں سے نالاں ہوں تو انکے کہنے پر دوسرے مسلک اور فرقے کے لوگوں کو بلا جھجھک کافر کا خطاب کیوں دے ڈالتا ہوں؟ میں اگر سیاستدانوں سے نفرت کرتا ہوں تو تو ہر الیکشن میں انہی کو ووٹ دے کر انکو منتخب کیوں کرتا ہوں؟

اور سچ یہ ہے کہ میں خود اپنا  مجرم ہوں ۔ اپنے دیس اور اپنے مذہب کا مجرم۔جی ہاں میں مجرم ہوں۔۔۔۔۔۔ 

11 تبصرے:

  1. لو جی میں آپ کے دکھ میں پورا شریک ہوں اور ایسا ہی ہے جیسے آپ نے میرے ہی الفاظ یا پھر شاید ہر اس پاکستانی کے الفاط استعمالے ہوں جو کچھ شعور رکھتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بہت شکریہ جناب
      آپ کے یہ الفاظ میرے لئے اعزاز سے کم نہیں ہیں

      حذف کریں
  2. بہت خوب فرمایا۔ آپ نےبرُائیوں کی نشاندہی بھی کی اُن کی وجہ بھی بیان کی اور اپنے اندر کی کوتاہیوں کا بھی اعتراف کیا اِس کے بعد تصحیح کا رستہ بھی نِکل آیا اللہ اُپ اور ہم سب کو بہتری کی طرف قدم بڑھانے کی توفیق دے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  3. جس بلاگ پر کمنٹ دینے کے لئے لاگ ان وغیرہ ہونا پڑے، میں وہاں سے چپ چاپ بھاگ نکلتا ہوں۔ مگر یہاں ایسا نہیں کر سکا کیونکہ مجھے لگ رہا ہے کہ آپ نے میری سوچ لکھ دی ہے۔ بے شک لوگ اس تحریر کو جذباتی پن کہیں مگر میری نظر میں یہی اصل حقیقت ہے اور جذبات ہمیں ایک آئینہ دیکھا رہے ہیں کہ کیا چل رہا ہے اور اصل قصواروار کون ہے۔
    خوش رہیں۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بہت شکریہ جناب
      براہ مہربانی لاگ ان والے مسئلے کا حل بھی بتا دیں مجھے تو تازہ تازہ شوق ہوا ہے میرے سے جیسا بن پڑا میں نے بنا لیا میں ان ٹیکنیکل باتوں سے زیادہ واقف نہیں ہوں میں آپکا شکرگزار ہوں گا

      حذف کریں
    2. بلاگ میں
      Settings ›› Posts and comments ›› Who can comment
      پر جا کر تبدیلی کر لیں۔ یعنی اسے
      Anyone
      کر دیں اس کے علاوہ یہیں پر
      Show word verification
      کو ختم کر دیں۔ باقی
      Comment Moderation
      جو آپ کو بہتر لگے وہ رکھ لیں۔

      حذف کریں
  4. گڈ۔۔۔۔ بہت اعلی
    اصل میں ہم میں یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ ہم دوسروں کا ایمان چیک کرنا شروع کر دیتے ہیں بھلے اپنا کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو اور چیک کرنے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن ہم ہاتھ کے ہاتھ اس کے بارے میں اپنا فتوی بھی جاری کر کے اُس کو اپنے اعلی مسلمان ہونے کا اندیہ بھی دے دیتے ہیں۔۔افسوس صد افسوس
    بس سب سے بڑھ کر "خود احتسابی"

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ