جمعرات، 3 مئی، 2012

گیلانی کے سعادت مند مرید کا عدالتی فیصلہ پر احتجاج



ہمارے پیر و مرشد،ہر دلعزیز،خوش شکل،خوش لباس اور خوش خوراک(خوراک سے مراد ڈالر اورقومی خزانہ ہے) سزا ہو گئی ہے۔چاہے سزا چند سیکنڈ کی ہی تھی لیکن  مجھ جیسے کمزور دل مرید پر برق بن کے گری۔پاکستان سپریم کورٹ کو مرشد کے لاکھوں، کروڑوں مریدوں  (میرا خیال ہے میں مبالغہ کر رہا ہوں) کے جذبات  کا خیال رکھنا چاہئے تھا اور ہمارے حق گو اور حد درجہ قانون پسند، ماہر قانون دان اعتزاز احسن کا بھی زور اسی بات پر تھاکہ گیلانی صاحب گدی نشین بزرگ ہیں اسلئے سپریم کورٹ کو چاہئے کہ  وہ مرشد کو سزا نہ دے اورانکی بدعا اور کروڑوں مریدوں (اف پھر مبالغہ) کے غضب سے بچیں  لیکن عدالت  چونکہ دشمنوں سے  ملی   ہوئی ہےاسلئے  عدالت نے پیر سائیں اور وڈے مرید صاب   یعنی اعتزاز احسن صاحب۔ سچ پوچھیں تو انہوں نے مریدی کا حق ادا کر دیا  اور ہم جیسے کمزور مرید صرف دعائیں ہی کرتے رہ گئے

سپریم کورٹ کو اگر سزا دینی ہی تھی تو مرشد کی  مرضی کی تو دیتے لیکن عدا لت  تو دشمنوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے اسلئے سزا بھی انکی مرضی کی نہیں ملی ۔ کیا برا تھا اگر مرشد چار دن مفت روٹی کھا لیتے چند ماہ کی مفت روٹی سے پاکستان نے دیوالیہ تو نہیں ہو جانا تھا۔ پاکستان تو مرشد کی بے حد کوششوں کے باوجود بھی دیوالیہ نہیں ہوا  چند ماہ  کی دال روٹی کیا حیثت  رکھتی ہے(ارے کہیں میں گستاخی تو نہیں کر گیا؟) اس کے ساتھ ساتھ چونکہ مرشد اللہ لوگ پیر ہیں اور شہادت کے خواہشمند بھی ۔ اگر عدا لت انکی مرضی کی سزا سنا دیتی تو  عدالت کا کام بھی پورا ہو جاتا  اور مرشد کی دیرینہ خواہش بھی۔مرشد کی شدید   خواہش تھی کہ انکے نام کے ساتھ شہید کا   دم  چھلا (اوہ  معاف کیجئے گا ) بلکہ شہید جیسا  مقدس لاحقہ لگ جائے لیکن  عدالت تو دشمنوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے
ہاں جی تو میں مفت روٹیوں کی بات کر رہا  تھا۔ ہمارے مرشد درویش صفت آدمی ہیں  اور قناعت پسندی اور سادگی  ان میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے اسلئے جو مزا  انہیں جیل اور مریدوں کی بوٹیاں ،  اوہو بلکہ روٹیاں کھانے میں آتا ہے وہ فائیو سٹار ہوٹلوں کے کھانوں میں بھی نہیں آتااسلئے وہ اخیر عمر(اللہ کرے اخیر ہی ہو) بلکہ حکومت کے آخری سال  وہ  سادگی اور قناعت سے  گزارنا چاہتے  تھے اور جیل  میں اکیلے اللہ اللہ کرنا چاہتے تھے اسلئے وہ اپنے سارے سیاسی ٹرکس اپنے بیٹوں میں منتقل کر رہے ہیں لیکن عدالت تو دشمن  بنی ہوئی ہے اب ان کے بیٹوں  کو بھی عدالت میں گھسیٹنا چاہتی ہے
اور یہ بھی آپ جانتے ہیں کہ ووطن عزیز میں مہنگائی بہت ہو چکی ہے اور جو بلا شبہ آمریت کا تحفہ ہے مرشد اپنے مریدوں سے بیت محبت کرتے ہیں اور کسی  بھی  تحفے کی بے قدری نہیں کرتے اسلئے انہوں نے  مشرف کے اس تحفے کو بھی سینے سے لگایا  اور پا ل پوس کر بڑا کر دیا اب یہ تحفہ انکے لئے بھی وبال جان بن گیا ہے اورہمارے سفید  پوش(آپ انکے کوٹوں پر نہ  جائیں) آدمی ہیں اور   انہیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں (اصل میں مرشد اپنے آپ کو ابھی بھی جوان سمجھتے ہیں اور  فاسٹ فوڈ کے زیادہ  شوقین ہیں)اسلئے انہیں زیادہ نہیں تو اگلے الیکشن تک مفت  روٹیاں ملنی چاہئیں الیکشن کے بعد  وہ اپنی   اصل کٹیا یعنی لندن سدھار جائیں گے اور وہاں انکے بڑے پیر صاحب انکی خدمات کے عوض  انکے نان نفقے کا انتظام کریں گے اسلئے عدالت کو چاہئے  تھا کہ وہ مرشد کو انکی مرضی کا فیصلہ سناتی لیکن عدالت تو دشمن بنی ہوئی  ہے اور مرشد کے  خلاف سازشوں میں مصروف ہے

عدالت نے مرشد کی تو سنی نئیں اسلئے ہم مرید عدالت سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ ایسی مضحکہ خیز سزا واپس لے یہ تو مرشد کی توہین ہے کہ وہ اتنے بڑے پیر اور سزا صرف بتیس سیکنڈ۔اور چنکہ مرشد  اور ہم عدا لت کا احترام کرتے ہیں اور آئین سے غداری نہیں کر سکتے اور اس کے لئے  مرشد کو پھانسی پر چڑھنا بھی قبول ہے اور ویسے بھی مرشد شہادت پانے کے خواہشمند ہیں  تاکہ وہ دنیا و آخرت میں  سرخرو ہوں۔  اس لئے ہم مریدوں کی عدا لت  سے درخواست ہے کہ اب اپیل کے دوران مرشد کی دیرینہ خواہش کا احترام کیا جائے اور انہیں اصلی شہادت کے درجہ  عالیہ پر فائز کیا جائےتاکہ مرشد کی روح کو بھی سکون ہو اور ہم مرید بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔

2 تبصرے:

بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ