منگل، 20 مئی، 2014

عادت ہے

میں انساں ہوں مجھے اپنی ہی من مانی کی عادت ہے
پتلا ہوں خطا کا میں خطا کرنے کی عادت ہے

زباں دی ہے مجھے رب نے جو چاہوں بول سکتا ہوں
نہ کر پاؤں میں جو کچھ وہ بھی کہہ جانے کی عادت ہے

جو گر پوچھو میرے وعدے تو سن لو اے بھلے لوگو
میں نیتا ہوں مجھے کہہ کر مکر جانے کی عادت ہے

کوئی مرتا ہے مر جائے مجھے لوگوں سے کیا لینا
مجھے لوگوں کے زخموں میں نمک بھرنے کی عادت ہے

میں ہوں طاقت کا سر چشمہ مجھے کچھ بھی نہ کہنا تم
مجھے کمزور لوگوں کو کچل دینے کی عادت ہے

 سخن ور کیا ہوئے وہ جن کو حق گوئی کی عادت تھی
میں ابن الوقت ہوں مجھ کو تو بک جانے کی عادت ہے

محمد عبداللہ


ہفتہ، 8 فروری، 2014

السفر وسیلۃ الظفر

کسی سیانے عربی کا قول ہے "السفر وسیلۃ الظفر"۔ یعنی سفر وسیلہ ء کامرانی ہے۔ یہ قول ہم نے تب سنا جب آتش بچہ تھا اس لئے شروع شروع میں تو ہمیں اس کی سمجھ ہی نہیں آئی اور ہم  اسے اپنے سکول کے چوکیدار ظفر چاچا سے منسوب کرتے رہے۔ سالوں بعد جب ہمیں اسکا مطلب سمجھ آیا تو ہم اس پر ایمان کی حد تک یقین کر بیٹھے اور ہم نے گویا کامیابی کا راز پا لیا۔ اور ہر طرح کی کامیابی کے لئے اس مقولے پر عمل کرنے لگے۔ جس دن سکول میں کوئی ٹیسٹ ہوتا تو  ہم اس  ٹیسٹ میں کامیابی کیلئے سکول  کی پچھلی دیوار پھلانگ کر لمبے سفر پر نکل جاتے۔ لیکن اس طرح کے سفر کا نتیجہ ہماری امیدوں کے برعکس نکلنے کی وجہ سے ہمارا ایمان اس جملے پر سے اٹھنے لگا اور کامیابی کی بجائے ٹیچرز کے ڈنڈے، ابا جی کے تھپڑ اور اماں جی کے جوتے مقدر ٹھہرے تو  ہم نے اس جملے کو دشمن کی سازش سمجھ کر نظرانداز کرنا شروع کیا۔
کچھ عرصے بعد جب ہمیں اس مقولے کی ٹھیک طرح سے سمجھ آئی اور مذکورہ سفر کی نوعیت کا پتا چلا تو ہم نے پھر ایک بار اس پر یقین کر لینے کی کوشش کی۔لیکن جب ہمیں کئی بار اس تجربے سے گزرنا پڑا تو ایک بار پھر ہم نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور پھر  سے اسے دشمن کی سازش سمجھنے لگے۔ پھر ہمیں کسی مہربان نے بتایا کہ یہ عرب حکایت ہے تو ہمیں اصل کہانی سمجھ آئی۔ کیونکہ اگر یہ کہنے والا عربی تھا تو اسکا شائد پاکستان چکر نہیں لگا اور اگر لگا بھی ہے تو اسکے لئے یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی کیونکہ پاکستان میں سفر کرنے کیلئے انہوں نے اپنی علیحدہ سے سڑکیں بنا رکھیں ہیں  جہاں سے ہمارے جیسے راہ گزر کا گزرنا ہی ممنوع ہوتا ہے۔ رحیم یار خان میں موجود محل کے راستے تو اسی طرح کے ہیں باقی پاکستان کے بارے میں ہمیں علم نہیں۔
ہمارے اب تک کے تجربے سے ہمارا اس مقولے سے ایمان اٹھ گیا ہے کیونکہ سفر ہمارے لئے       "وسیلۃ الظفر"کی بجائے "قطعۃ من العذاب" ہی ثابت ہوا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ جب بھی سفر پر نکلنے کا ارادہ ہوتا ہے تو ہم  کچھ دن پہلے سے ہی دافع  بلیّات  دعاؤں اور وظائف کا ورد شروع کر دیتے ہیں کہ یا خدا اس بار کسی نئی آزمائش سے محفوظ رکھنا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ جب بھی کہیں جانے کا پروگرام بنے تو چند دن پہلے ہی سے ہماری راتوں کی نیند غارت ہو جاتی ہے اور رات کو لائٹ بند کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ اگر بد قسمتی سے نیند آ بھی جائے تو پرانے ہمسفروں اور بسوں کے عملے کی شکلیں ہمیں بھوت بن کے ڈرانے لگتی ہیں۔ انکی ہنسی سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے  وہ کہہ رہے ہوں کہ اب کہاں جاؤ گے بچو۔۔۔
اب چونکہ ہم پڑھائی کیلئے گھر سے سینکڑوں میل دور آ بسے ہیں اسلئے اس سب کے باوجود وقتاً فوقتاً لمبا سفر کرنا پڑتا ہے۔ بالفاظ دیگر ہمارے لئے صورتحال کچھ یوں ہے کہ
اک آگ کا دریا ہے اور "کود" کے جانا ہے
اور دوران سفر اس اچھل کود کے دوران ہماری جو حالت ہوتی ہے  اور اس دوران جو انواع اقسام کے نمونے ملتے ہیں وہ ناقابل بیان ہیں۔ لیکن بیان کئے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں کیونکہ یہ سب برداشت کر کے   ہماری حالت اتنی بری ہو چکی ہے کہ کتھارسس کئے بغیر کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا۔ بلکہ ایک ڈاکٹر صاحب تو ہماری حالت زار سن کر حیر ت سے فرمانے لگے کہ کمال ہے آپکا ابھی تک نروس بریک ڈاؤن نہیں ہوا۔
سفر کا سب سے اہم حصہ سواری کی حالت زار ہوتا ہے۔ اگر آپ  نے  پاکستان میں چلنے والی درمیانے درجے کی روڈ ٹرانسپورٹ  پر کبھی سفر کیا ہے تو آپ ہمارے دکھ کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔  بس کا عملہ ڈرائیور کے ساتھ ٹاپے پر بیٹھ  پکے سگریٹ لگا رہا ہوتا ہے اور اسکے عین اوپر"سگریٹ نوشی منع ہے" کا ایک  بڑا سا اسٹیکر لگا ہوتا ہے ۔  اس دوران بس میں دھویں کی بو کو ختم کرنے  کیلئے ائر فریشنر کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی "خوشبو" سونگھنے کے بعد آپکو چرس کی بو بھی اچھی لگنے لگتی ہے ۔
دوران سفر ایک اور کڑی مشقت جس کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ بس میں چلنے والے گانے ہوتے ہیں۔منی بیگم اور عطاءاللہ خان عیسیٰ خیلوی کے ایسے ایسے گانے چلائے جاتے ہیں جنہیں ہم چند منٹ بھی سن لیں تو ہمیں قے آجاتی ہے اور ہم دیواروں میں ٹکریں مارنے لگتے ہیں جس سے ہمارے سر میں بھی درد شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں کوئی بھی ذی ہوش انسان ایسے  گانے صرف اسی وقت سنتا ہے جب اسے خود اذیتی مقصود ہو۔ویسے بھی ہمارے مشاہدے کے مطابق عطاءاللہ کے گانے تب اچھے لگتے ہیں جب آپ نے کم و بیش چار پانچ شادیاں کر رکھی ہوں لیکن پھر بھی آپ سچے پیار کے متلاشی ہوں۔
لیکن بسوں اور ٹرکوں والوں کو تواتر سے عطاءاللہ کے گانے سنتے دیکھ کر ہمیں اپنے خیال پر شک ہو چلا تھا کہ یہ عقدہ کھلا جس  سے ہمارے خیال کی تصدیق ہو گئی۔ ہوا کچھ یوں کہ ہم ایک بارتنگ آ کر کنڈیکٹر سے الجھ پڑے کہ بھائی خدا کا خوف کرو ہمیں ہمارے گناہوں کی دنیا میں سزا نہ دو اور گانے بند کردو۔ کنڈیکٹر صاحب فرمانے لگےکہ اگر گانے بند کر دئیے تو استاد سے  گاڑی نہیں چلے گی۔
 کیوں بھائی استاد نے ڈیک میں چرس کا تڑکہ لگایا ہوا ہے؟
نئیں پا جی توانوں  نئیں پتا اگر گانے بند ہو گئے تے استاد نو نیند آ جانی فیر اگے تسی آپ سمجھدار او۔
یہ سن کر ہم حیران رہ گئے اور تھوڑے سے پریشان بھی ہوئے لیکن ہم چونکہ گانوں سے بیزار ہوئے بیٹھے تھے اسلئے گانے بند کروانے پر اڑے رہے۔ کنڈیکٹر صاحب نے "جیویں تواڈی مرضی" کہہ کر گانے بند کروا دئیے۔ گانے بند ہونے پر ہم نے سکون کا سانس لیا اور اطمینان سے سیٹ پر سر رکھا اور آنکھیں بند کر کے  سفر سے لطف اندوز ہونے لگے۔گانے بند ہوئے ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ بس کو زوردار جھٹکا لگا اور ہم سمیت کئی مسافروں کا سر اپنی اگلی نشستوں  سے ٹکرایا اور تمام مسافروں کے منہ سے با جماعت گالیاں ابل پڑیں۔ ہم نے غصے سے ڈرائیور کی طرف دیکھا تو کنڈیکٹر صاحب ہماری طرف آئے اور فرمانے لگے "پاجی میں توانوں پہلے ای کہیا سی"۔
آپکے سفر کا اچھا یا برا ہونا آپکے ہمسفر بالخصوص آپکی ساتھ  والی نشست والے مسافر اور  اگلی اور پچھلی نشستوں پر برا جمان مسافروں پر بھی منحصر ہوتا ہے۔اگر آپ ہماری طرح شریف(شریف اسلئے کہ جو کچھ کر نہیں سکتا وہ شرافت ہی دکھا سکتا ہے) اور دھان پان سے آدمی ہیں  تو آپکے ساتھ والا مسافر  آپکی چوتھائی نشست پر قبضہ کرنا اپنا حق ہمسائیگی سمجھتا ہے اور اگر وہ آپکی آدھی نشست پر قبضہ کر لے تو وہ اسکا بونس۔ اسی طرح  اکثر مسافروں کو بولنے کی بیماری ہوتی ہے انکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ 12 گھنٹے کے سفر میں  آپکے ساتھ کوئی رشتہ داری نکال لیں ۔ اگر کوئی زیادہ ایڈوانس ہوں تو وہ آپ سے رشتہ داری بنانے کے لئے بھی تیار ہو جائیں گے ۔
مسافروں کی وہ قسم جو ہمیں پسند ہے وہ   بے حد نایاب ہے۔یہ وہ مسافر ہیں جو بس میں سوار ہو کر صرف ایک بار ہی  زبان ہلاتے ہیں۔ "ایکسیکیوزمی "  اور بیٹھ جاتے ہیں۔یا پھر ایسے لوگ جو صرف تعارف کرتے اور کرواتے ہیں اور باقی کا سفر  خاموشی سے کٹتا ہے۔ اگر آپکو ایسا ہمسفر  میسر آ جائے تو اللہ کا شکر ادا کریں اور ہو سکے تو خوشی میں کچھ صدقہ بھی کر دیں تاکہ آپکو اگلی بار بھی ایسا بیبا ہمسفر ملے۔
بہت بولنے والے مسافروں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو آپکو کھانے کی دعوت دیتے ہیں اور اگر آپ انکار کردیں تو وہ مزید اصرار کرتے ہیں اور اگر آپ تب بھی انکی دعوت قبول نہ کریں تو وہ کوئی ایسا جذباتی جملہ بولیں گے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپکی آنکھوں میں سے آنسو آ جائیں گے۔ ایک بار یونہی ایک ہمدرد ہمسفر ملے انہوں نے ہمیں سفر کے آغاز میں ہی اپنا مکمل تعارف ، پتہ اور سفر کی وجہ بیان فرما دی ۔  اسکے  ساتھ ساتھ اپنےنومولود  بھانجے کی تصویر   بھی دکھائی اور  اپنے  گھر میں آنیوالے نئے مہمان  کی آمد  کی پیش گوئی بھی کی۔ ان صاحب نے دوران سفر ایک اسٹاپ سے کچھ چپس  وغیرہ خرید لئے اور ہمیں بھی کھانے کی دعوت دی جسے ہم نے شکریہ کے ساتھ ٹھکرا دیا۔ انکے بارہا اصرار پر بھی میں نے لینے سے انکار کیا تو فرمانے لگے " یہ میں نے آپکے لئے خریدے تھے میں تو چپس ویسے ہی نہیں کھاتا"۔
کچھ گھنٹوں بعد جب ہم سردی سے بچنے کے لئے اپنے اوپر چادر ڈال کر سو رہے تھے تو ہمیں سردی لگنے کا احساس ہوا   ۔ اٹھ کر خالی الذہنی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھا ۔ پہلے تو کچھ سمجھ نہ آیا لیکن حواس بحال ہونے پر دیکھا کہ وہ صاحب ہماری چادر لے کے آرام فرما رہے ہیں۔
دوران سفر اکثر اوقات آپکے ساتھ والے مسافر آپکو امی جی سمجھتے ہوئے آپکے کندھے پر اپنا سر  رکھ کر آرام فرمانا بھی پسند کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کو وہ اپنا حق سمجھتے ہیں اور آپ سے شفقت کی امید رکھتے ہیں۔ ایک بار ہمارے ساتھ ایک بھاری بھر کم صاحب بیٹھ گئے۔حق ہمسائیگی تو وہ بیٹھتے وقت ہی حاصل کر چکے تھےمطلب ہماری چوتھائی سے کچھ زائد نشست پہ قبضہ۔ بس کی روانگی سے کچھ دیر بعد ہی انکے ناک سے جلترنگ بجنے لگا۔شروع میں تو خاصی کوفت ہوئی لیکن پھر قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا۔ یہاں تک تو بات قابل برداشت تھی ۔لیکن کچھ دیر بعد انہوں نے اپنا تقریباً پونے بارہ سیر وزنی سر ہمارے کمزور سے کندھے پہ ٹکا دیا جو کہ پہلے ہی ہمارے گناہوں کا بوجھ اٹھا اٹھا کے تھک چکے تھےاب انکے سر کا وزن کہاں برداشت کرتے۔ اب ہم اس کڑی مصیبت میں پھنسے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کر رہے تھے اور ماضی میں کئے گئے نیک کام یاد کرنے کی  کوشش کرنے لگے جو اس "بھاری پتھر " کو ہمارے کندھے سے ہٹا دیتے۔
لیکن باوجود کوشش کے جب ہمیں کوئی ایسا کام یاد نہیں آیا تو ہم نے اللہ سے اپنے اگلے گناہ کی پیشگی معافی مانگی  ۔ نیکیاں یاد کرنے کی کوشش چھوڑ کر اپنے زور بازو پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا اور انکی بڑھی ہوئی توند میں اپنی سلاخ سی کہنی چبھو دی۔زور بازو کے استعمال کی برکت سے وہ صاحب نیند سے بیدار ہوئے ۔ سیدھے ہو کر تھوڑی دیر ادھر ادھر دیکھا اور چند منٹ بعد پھر ہارمونیم بجنے لگا اور اسی ترتیب سے وہ پھر ہمارے کندھے پر آ گرے۔ ہم نے بھی اپنا طریقہ آزمایا اور ساری رات یہ کھیل چلتا رہا وہ اپنا حق استعمال کرتے رہے اور ہم اپنا زور بازو۔گیارہ گھنٹے کے طویل سفر کے بعد صبح جب ہم اپنے گھر پہنچے تو ہمارا دایاں کندھا تقریباً سن ہو چکا تھا اور مزید بوجھ اٹھانے سے انکاری بھی۔ ہفتہ بھر ناریل کے تیل کی مالش کرنے سے ٹھیک ہوا اور تب تک ہم لاہور واپسی کےلئے تیار ہو چکے تھے۔
بس پر سفر کے دوران ہمیں عام طور پر بس کی تنگ اور سخت نشستوں سے مسئلہ رہتا اور ہم بس مالکان کو برا بھلا کہتے رہتے۔لمبے سفر کے دوران تنگ اور سخت نشست پر بیٹھنا بہت اذیت ناک مرحلہ ہوتا ہے۔لیکن جب پہلی بار ہمیں اسکائی ویز  لاہور پر سفر کا اتفاق ہوا تو وہ نشستیں جن پر بیٹھنا ہمیں عذاب لگتا تھا  پھولوں کی سیج لگنے لگیں۔ اسکی وجہ شیخ سعدی کی جوتوں والی حکایت سے ملتی جلتی ہے۔ شیخ سعدی کی روح سے معذرت کے ساتھ
"مجھے بس کی تنگ اور سخت نشست پر بیٹھنا عذاب لگتا تھا اور میں اسکی برائیاں کر کے نا شکری کا مرتکب ہوتا تھا۔ لیکن جب اس نشست پر بیٹھ کر میں نے اپنے قدموں میں موڑھا رکھ کے بیٹھے ہوئے آدمی کو دیکھا تو نشست پا لینے پر اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنی ناشکری کی معافی مانگی"۔

ہفتہ، 1 جون، 2013

کیسا ہے

یہ سفر زیست کیسا ہے، خوشی کا گیت کیسا ہے
یہ اندھی رات میں لوگو ضیاء کا دیپ کیسا ہے
کڑکتی دھوپ میں ہمدم، یہ کیسا ابر ہے چھایا
یہ ساحل کے کنارے پر چمکتا
سیپ کیسا ہے
کہیں پر ابر رحمت ہے کہیں طوفان کی آمد
کوئی مجھ کو بتائے تو کہ یہ تعزیر کیسا ہے
جہاں ہر سمت ظلمت کی گھٹا تاریک چھائی تھی
وہاں ظالم کے سینے میں دھنسا یہ تیر کیسا ہے

محمد عبداللہ

پیر، 13 مئی، 2013

جب ہم لیپ ٹاپ کے حقدار ٹھہرے (دوسری قسط)


24 دسمبر کی تقریب ملتوی  ہو جانے کے بعد کوئی اطلاع نہیں تھی کہ اب تقریب کب ہونی۔ ہم بھی گھر میں مزے سے چھٹیاں  بلکہ ایکسٹرا چھٹیاں گزار رہے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ اب وزیر اعلیٰ کب ہماری طرف نظر التفات فرمائیں گے۔4 جنوری کو بعد از نماز جمعہ ہمیں سی۔آر  کا ایس ایم ایس ملا جس میں نادر شاہی حکم جاری کیا گیا تھا کہ آج انڈرٹیکنگ فارم ملنے ہیں اسلئے فوراً یونیورسٹی رپورٹ کرو اور فارم فل کر کے جمع کراؤ۔اب ہم عجیب مصیبت میں تھےکہ پہلے بتایا نہیں اب اچانک دھماکہ کر دیا۔ ہمارے پاس کوئی اڑن طشتری تو ہے نی جو اس پہ بیٹھ کہ منتر پڑھا اور10 گھنٹے کا سفر پل بھر میں طے ہو گیا۔اب لگے ہم یونیورسٹی والوں کو برا بھلا کہنے۔ دل تو گالیاں دینے کا بھی بہت کر رہا تھا لیکن جمعہ کے مبارک دن کا لحاظ کرتے ہوئے خود پر بمشکل قابو پایا۔ اب ہم جلے پاؤں کی بلی کی طرح  چکر کاٹ رہے تھے اورساتھ ساتھ  یونیورسٹی والوں کو فون ملانے کی کوشش کر رہے تھے۔ خدا خدا کر کے انہوں نے کال ریسیو کی اور ہمارا مسئلہ سننے کے بعد ہمیں تسلی دی کہ آپ بے فکر رہیں اورسوموار کی صبح ذرا جلدی آجائیں آپکو فارم مل جائیں گے۔ یہ سن کر دل کو کچھ حوصلہ ہوا اور اگلے دن لاہور کی تیاری پکڑی۔
اتوار کی رات ہم خوشی اور ڈر کے ملے جلے جذبات کے ساتھ سوئے۔ خوشی کی وجہ سے تو آپ اب تک واقف ہو چکے ہوں گے اور ڈر اپنی نشئیوں والی نیندکا تھا  کہ اگر ہم الارم لگانے کے باوجود ہم اٹھ نہ پائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے آگے کا تصور ہی ہمارے لئے روح فرسا تھا۔لیکن خیریت گزری اور ہم صبح ٹائم پر اٹھ گئے اور تیار شیار ہو کے یونیورسٹی پہنچ گئے۔
یونیورسٹی پہنچے تو پتا چلا کہ ہم جیسے اور بھی کئی انڈر ٹیکنگ فارم کے امیدوار ہیں۔ فارم لینے والوں کی تعداد تو کافی زیادہ تھی لیکن فارم دینے والا کوئی نہ تھا۔ کافی انتظار کے بعد ایک ٹیچر ہاتھ میں فارمز کا بنڈل پکڑے نمودار ہوئے اور ہم نے سکھ کا سانس لیا۔طلباء کے ہجوم کو دیکھتے ہوئے انہوں نے سب کو لائن میں لگنے کا حکم دیا ۔ یہاں ہم جیسے سست الوجود آدمی نے بھی پھرتی دکھائی اور لائن میں آگے لگ کے کھڑے ہو گئے تاکہ جلدی باری آئے اور ایک عذاب سے تو جان چھوٹے۔ لیکن ہماری بری قسمت کہ یہاں بھی جنسی تفریق  ہمارا رستہ روکے کھڑی تھی۔ لیڈیز فرسٹ کے عالمی اصول کے مطابق یہاں بھی پہلے لڑکیوں کو موقع دیا گیا جس پر ہمیں غصہ تو بہت آیا لیکن ہم کر ہی کیا سکتے تھے یہ سوچ کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ بس ہم ترسی ہوئی نظروں سے سر کی کی طرف دیکھنے لگے۔ سر   نے بھی شائد ہماری مسکین صورت دیکھ کے ہم پہ ترس کھانے کا فیصلہ کیا اور لیڈیز فرسٹ  کے اصول کو پینڈنگ میں ڈال کے مساوات کو  اصول کو موقع دیا گیا اور یوں ہمیں بھی انڈرٹیکنگ فارم سے نوازا گیا۔
  پنجاب لاء کالج  میں تقریب کا انتظام کیا گیا تھا جہاں ہم مقررہ وقت یعنی 9 بجے تک پہنچ چکے تھے۔وہاں پہنچ کر ہم خادم اعلیٰ جو کہ اب تک ہمارے لئے ظالم اعلیٰ بن چکے تھے کا انتظار کرنے لگے ۔تھوڑی دیر بعد سٹیج سیکرٹری نے خوشخبری سنائی کہ خادم اعلیٰ یہاں آنے کے لئے روانہ ہو گئے ہیں اور بس تھوڑی ہی دیر میں پہنچتے ہی ہوں گے اور یہ تھوڑی دیر کم و بیش  دو گھنٹے بعد ہوئی۔شہباز شریف کے آنے تک سٹیج سیکرٹری ہمیں لطیفوں سے محظوظ کرتے رہے میرا مطلب شہباز شریف کے کارنامے اور تعلیم اور نوجوانوں کے لئے انکی خدمات کا ذکر کرتے رہے۔ اور گاہے بگاہے چلنے والے میوزک اور گانوں نے بھی ہمارا دل خوش کئے رکھا۔ اور کنسرٹ بپا کرنے کے لئے ایک نوجوان سنگر ندیم عباس کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جو کہ ہر جلسے میں خادم اعلیٰ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ مطلب انہوں نے اپنی روزی روٹٰی کا انتظام کر لیا ہوا ہے۔ اگر آپ ندیم عباس سے واقف نہیں تو بتاتا چلوں کہ یہ ندیم عباس وہی ہیں جو انڈیا میں ہونے والے" سُر کشیترا "میں ٹائم سے ہی باہر ہوگئے تھے۔
تقریباً دو گھنٹے کے انتظار کے بعد وزیر اعلیٰ کی تشریف آوری ہوئی  ۔ جنکا استقبال کھڑے ہو کر تالیوں  اور نعروں  سے کیا گیا اور یہاں بھی ہم نے اپنی ازلی کمینگی دکھائی اور مجال ہے کہ ایک بھی تالی بجائی ہو ۔ ایک تو ہمیں یہ صاحب ویسے بھی پسند نہیں اوپر سے طویل انتظار۔ استقبال کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ خیر خادم اعلیٰ صاحب اپنے مخصوص انداز میں بھاگے بھاگے آئے اور سٹیج پہ براجمان ہو گئے۔اور اسکے ساتھ ہی  تقریب کا باقاعدہ آغاز بھی ہو گیا۔چونکہ ہم اسلامی ملک کے شہری اور پیدائشی مسلمان واقع ہوئے ہیں اسلئے سب سے پہلے تلاوت قرآن  کریم اسکے بعد نعت رسولﷺ اور پھر چل سو چل۔ قومی ترانہ، پھر پنجاب حکومت کا ترانہ، تقریرں ،خوشامدیں اور لائیو گانے۔
اس تقریب کے دوران جو خوشامد دیکھنے کو ملی اس نے ہماری حکمرانوں اور انکے چمچوں سے نفرت کو حد درجہ بڑھا دیا۔وہاں مزید بیٹھے رہنے کا دل تو کر نہیں رہا تھا لیکن خود پر جبر کر کے بیٹھے رہے کہ بھائی صاحب چپکے بیٹھے رہو تمہارے غصے سے انکی خوشامد میں کمی نہیں آنی برداشت کرو کیونکہ لیپ ٹاپ تو انہی سے لینا ہے ۔پنجاب یونیورسٹی کی ڈیبیٹنگ سوسائٹی کے صدر نام غالباً حمزہ تارڑ  نے اپنی تقریر اور لفاظی کے فن کو جگاتے ہوئے وزیر اعلیٰ کی شان میں زمین  آسما ن ایک کر دیے۔ یوں لگتاتھا کہ جناب سے بڑا پاکستانی عوام کا خیر خواہ آج تک پیدا ہی نہیں ہوا اور نہ مستقبل میں پیدا ہونے کا امکان ہے۔ پھر وائس چانسلر صاحب کی باری آئی تو وہ بھی خوشامد میں کسی سے پیچھے نہ رہے اور وزیر اعلیٰ کی شان میں ایک لمبی جذباتی تقریر جھاڑ دی۔ یہ شائد انکی پیشہ ورانہ مجبوری بھی تھی کیونکہ وی سی بنے رہنے کے لئے سیاستدانوں کے ساتھ اچھی سلام دعا توہونی چاہیے۔ویسے بھی ہمارے وی سی صاحب کی شہرت سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔ اگر نہیں واقف تواگنور کریں ۔ اللہ آپکا بھلا کرے۔
سب سے آخر میں  خادم اعلیٰ کی لطیفے سنانے کی باری آئی جن پر ہم کچھ دیر تو ہنستے رہے لیکن جب جناب رکے نہیں تو وہی پرانے لطیفے سن سن کے بیزاری ہونے لگی۔وہی گھسے پٹے وعدے، کارناموں کی لمبی اور نا ختم ہونیوالی فہرست، سیاسی مخالفوں کو دھمکیاں  اور خاص طور پہ نوجوانوں کے ساتھ کے دعوے۔ اور سب سے بڑھ کر زرداری کو الٹا لٹکانے اور سڑکوں پہ گھسیٹنے کا عزم۔لیکن ان سب باتوں کے باوجود خادم اعلیٰ صاحب کے باڈی ایکسپریشن اور حرکتیں کمال تھیں جن سے ہم خاصے محظوظ ہوئے۔تقریب کے دوران ہم سٹوڈنٹس کو گارڈ آف آنر بھی دیا گیا ۔جس کے بارے میں وزیر اعلیٰ صاحب کا کہنا تھا کہ اس کے اصل حقدار آپ ہیں۔   اگر اصل حقدار ہم ہیں تو آپ انہیں اپنے ساتھ کیوں لئے پھرتے ہیں۔ہیں جی۔ خیر خدا خدا کر کے وزیر اعلیٰ صاحب کی تقریر  کا اختتام ہوا ۔جس کے بعد چند طلبا ء کو وزیر اعلیٰ نے اپنے ہاتھ سے لیپ ٹاپ دئیے اور فوٹو کھنچوائے۔ اسکے بعد تقریب کا اختتام اایک گانے پر ہوا جس پر وزیر اعلیٰ نے لائیو پرفارم بھی کیا   اور عوام کو ناچنے پہ لگا کے خود گارڈز کے جلو میں فرار ہو گئے۔
 پوری تقریب نے  ہمیں بور ہی کیا لیکن پھر بھی تقریب اتنی بھی بری نہیں تھی۔ کچھ کچھ انجوائمنٹ کا سامان بھی تھا۔ مثلاً سب سے زیادہ مزہ ہمیں گارڈ آف آنر لینے کا آیا۔ وہ پولیس  جس سے ہم صرف گالیاں اور دھکے ہی کھاتے تھے آج وہ ہمیں سیلوٹ کر رہی تھی۔ پھر جناب خادم اعلیٰ کے بیان کردہ لطیفے، الٹی سیدھی حرکتیں اور بھٹو بننے کی ناکام کوششیں کرتے دیکھ کر ہمیں کافی ہنسی آئی اور ترس بھی بہت آیا۔ وزیر اعلیٰ کی تقریر کے دوران سٹیج کے سامنے بیٹھے ہوئے کچھ لڑکے عمران خان کے حق میں نعرے لگا رہے تھے اور کچھ ہی فاصلے پر کھڑا وزیر اعلیٰ کا پروٹوکول آفیسر انہیں گھور رہا تھا ۔ لیکن اسکی گھوریوں   کے باوجود جب وہ باز نہ آئے تو اسکی بے بسی قابل دید تھی۔ سب سے مزیدار چیز تقریب میں چلنے والا میوزک تھا جس نے ہماری بوریت کو کم کرنے میں کافی مدد کی۔ مخالفین کو سیاسی کنسرٹ کے طعنے دینے والوں نے اپنی تقریب میں بھی نوجوان نسل کی تفریح طبع کے لئے فل ٹائم ڈسکو ماحول چلایا ہوا تھا جس سے ہم  خوب لطف اندوز ہوئے۔
تقریب ختم ہونے کے بعد حکم ملا کہ سب اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹس چلیں جائیں لیپ ٹاپ وہیں ملیں گے ۔ہمارا ڈیپارٹمنٹ چونکہ علیحدہ بنا ہوا ہے اسلئے ہمیں آئی۔بی۔آئی۔ٹی ۔ جانے کا حکم ملا۔ وہاں پہنچے تو ڈیپارٹمنٹ کے دروازے یوں بند تھے جیسے  قصر شاہی میں غریب کے لئے بند ہوتے ہیں۔ حکم جاری ہوا کہ ابھی باہر بیٹھ کے انتظار کرو۔ ادھرچونکہ ہم نے صبح کا ناشتہ بھی نہیں کیا   ہوا  تھا اسلئے ہمارا  بھوک سےبرا حال اور اوپر سے انتہائی بورنگ تقریب۔ پارہ تو ہمارا  وزیر اعلیٰ  کے انتظار کے دوران ہی ہائی ہو گیا ہوا تھا اب تو یہ آسمان کو چھونے لگا ایک بار تو دل کیا کہ بھاگ لیں یہاں سے لیکن بھاگنا بھی ہمارے مفاد میں نہیں تھا۔ اسلئے مرتے کیا نا کرتے وہیں گراؤنڈ میں ڈیرے ڈال لئے۔
ڈیڑھ دو گھنٹے کے صبر آزما انتظار کے بعدہماری خوش قسمتی کا  در میرا  مطلب ڈیپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا اور ساتھ ہی لائن میں لگنے کا حکم بونس میں۔ لیکن ہماری قسمت اچھی تھی کہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی لسٹ میں ہماری کلاس سب سے اوپر تھی اسلئے ہماری باری جلد ہی آگئی۔ہم نے جیب سے مڑے تڑے کاغذات نکالے اور انہیں سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لائن میں لگ گئے۔ اب ایک مرحلے پر کاغذات دکھانے کے بعد  لیپ ٹاپ بمعہ بیگ ہمارا منتظر تھا۔ خدا کا شکر کہ وہ مرحلہ بھی بخیر و عافیت طے ہو گیا اور یوں ہم ایک عدد لیپ ٹاپ کے حقدار ٹھہرے۔
لیپ ٹاپ وصولتے وقت ہمارے منہ سے بے اختیار تھیینکس ٹو عمران خان نکلا ۔ اسے وہاں بیٹھے ہوئے صاحب (غالباً کوئی ٹیچر تھے ) جن سے ہم نے لیپ ٹاپ وصولا تھا نے بھی سن لیا اور ہمیں چونک کر دیکھنے لگے۔ ایک لمحے کے لئے تو ہمارا سانس رک  سا گیا  یہ سوچ کے کہ کہیں ہم سے لیپ ٹاپ واپس نا لے لیں کہ جاؤ عمران خان سے لو ۔ لیکن خیریت گزری اور انہوں نے مسکرانے کے سوا کچھ نہ کیا  اور ہم بھی جلدی سے لیپ ٹاپ اٹھا کے باہر کو بھاگے۔باہر آکے ہم نے سر آسمان کی طرف اٹھا کے اللہ کا شکر ادا کیا اور سر نیچے کرنے کے بعد  زیر لب بولے۔
"شباژ ساب! لیپ ٹاپ تے تسی سانوں دے دتا اےپر اسی ووٹ توانوں فیر وی نی دینا۔"
(ختم شد)

جمعرات، 9 مئی، 2013

جب ہم بھی لیپ ٹاپ کے حقدار ٹھہرے (پہلی قسط)


دسمبر 2012 میں جب ہم اپنے مڈ ٹرم ایگزامز سے فارغ ہوئے ہی تھے اور  شہباز شریف سے مایوس ہو کے  دل ہی دل میں  اپنا لیپ ٹاپ خریدنے کا پختہ ارادہ بھی کر چکے تھے ۔ تب ہمیں ایک ہمدرد دوست نے مشورہ بلکہ نصیحت کی کہ تھوڑا انتظا ر کر لو شائد لیپ ٹاپ مل ہی جائے۔ لیکن ہم نے تو اتنی بڑی امید کبھی خود سے نہیں لگائی تھی یہ توسیاستدان تھے نہلے پہ دہلا یہ کہ تھے بھی شریف جن سے ہمیں اپنے انتہائی بچپن سے ہی شدید نفرت تھی۔ لیکن خیر ہم نے  عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتظار کرنا مناسب سمجھا۔
چند دن بعد دوسرے ڈیپارٹمنٹس کے سٹوڈنٹس سے یہ خبریں  سننے کو ملیں کہ 14 دسمبر کو لیپ ٹاپ ملنے ہیں ۔اس خبر کو ہم نے مذاق ہی سمجھا اور جب اگلے دن ایڈمن آفس سے اس خبر کی تصدیق کی کوشش کی تو وہ جناب ہماری طرف یوں دیکھنے لگے جیسے ہم نے کوئی مزاحیہ بات کردی ہو۔پھر فرمانے لگے کہ ابھی ہمیں گورنمنٹ  کی طرف سے ایسا کوئی نوٹس نہیں ملا۔یہ سننا تھا کہ ہمارے خواب چکناچور ہو گئے اور ہم "دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے" ٹائپ گانے اور شہباز شریف کے خلاف بیانات اور انٹرویو سن کر اپنا غم غلط کرنے کی کوششیں کرنے لگے۔
 اب حالت کچھ یوں تھی کہ ایک طرف ہوسٹل میں موجود دوسرے ڈیپارٹمنٹس کے لڑکے ہمیں ڈرائے جا رہے تھے کہ بھائی لیپ ٹاپس کے لئے رجسٹریشن شروع ہو گئی ہے اپنے ڈاکیومنٹس جمع کراؤ ورنہ لیپ ٹاپ نہیں ملنا اور دوسری جانب ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی پر اسرار خاموشی۔ آخر کار یہ خاموشی بھی ٹوٹ ہی گئی اور ہمیں بھی یہ خوشخبری سنا دی گئی کہ لیپ ٹاپ واقعی ملنے ہیں۔ یہ خوشخبری ملنے کے اگلے ہی دن  حکومت پنجاب کی طرف سے ان طلبا کی فہرست جاری ہو گئی جس میں ہمارا نام بھی موجود تھا۔ اور یوں ہمیں یونیورسٹی لائف میں پہلا خوشگوار ہواکا جھونکا نصیب ہوا۔ لیکن ہماری یہ خوشی اس وقت ماند پڑ گئی جب پتا چلا کہ شہباز شریف کی طبیعت ناساز ہے جسکی وجہ سے لیپ ٹاپس کی تقسیم 17 کو ہو گی۔ سچ پوچھیں تو زندگی میں پہلی بار انکی بیماری کا سن کر ہمیں دلی افسوس ہوا۔ اب ہم شدت سے 17 کا انتظار کرنے لگے۔ لیکن "خادم اعلیٰ" کی بیماری نے ہمیں 17 سے 24 پہ لٹکا دیا  ۔ یہ خبر سن کر ہمیں شدید غصہ آیا لیکن بے بسی کے عالم میں ہم دیواروں میں ٹکریں مارنے کے سوا کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ ہم ادھر 20 کو اپنے گھر جانے کا پروگرام بنائے بیٹھے تھے کہ ہماری اماں جان کو 2 ماہ ہو گئے ہماری صورت دیکھے ہوئے وہ بھی اب شدت سے ہمارا انتظار  فرما رہی ہوں گی۔ لیکن "خادم اعلیٰ" کی بیماری نے سارا پروگرام خراب کر دیا۔
اب ہم "خادم اعلیٰ"  کو دعائیں دیتے ہوئے 24 کا انتظار کرنے لگے کہ یا اللہ "خادم اعلیٰ"  کو 24 سے پہلے پہلے صحت عطا فرما اسکے بعد بے شک اوپر اپنے پاس ہی بلا لینا ہمیں کوئی اعتراض نی۔وزیر اعلیٰ کے حق میں ہماری آدھی دعا تو قبول ہو گئی لیکن باقی آدھی  کسی اور کے حق میں چلی گئی۔ ہم جو لاہور میں اپنا سامان باندھ کے بیٹھے ہوئے تھے کہ لیپ ٹاپ ملے اور ہم اپنے گھر کی راہ لیں اور جا کے شوخیاں ماریں کہ ہمیں بھی مفتے کا لیپ ٹاپ ملا ہے۔ لیکن ہنوز لیپ ٹاپ  دور است۔
22 دسمبر کی رات کو خبر ملی کہ بشیر احمد بلور کو دھماکے میں اڑا دیا گیا ہے۔ اس خبر کا ہم پر کوئی زیادہ اثر نہ ہوا ۔ کیونکہ انسان کو ایک دن مرنا تو ہے ہی آج نہیں تو کل۔ ہم نے بس انا للہ پڑھی اور مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کر کے سو گئے۔ صبح  جب 11 بجے کے قریب ہماری آنکھ کھلی تو ہمارے ایک روم میٹ جو شائد ہم سے شدید جیلس بھی تھے( کیونکہ انکا لیپ ٹاپ ابھی دور تھا)  نے مسکراتے ہوئے خبر دی کہ "خادم اعلیٰ"  نے سوگ کا اعلان کرتے ہوئے تقریب کینسل کر دی ہے۔ ہمیں خبر سے زیادہ اسکی مسکراہٹ پر غصہ آیا اور ہم نے اسے سبق سکھانے کے لئے بازو اوپر کئے لیکن کچھ کر نہ سکے ۔ کیونکہ کچھ کرنے میں زیادہ نقصان ہمارا ہی تھا۔ اور اس وقت ہمیں طالبان سےاتنی شدید نفرت محسوس ہوئی کہ  پہلے کبھی نہ ہوئی تھی ۔بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ اتنی سردی میں ایک شریف آدمی کو بغیر کسی وجہ کے مار دیا۔
کر تو ہم یہاں بھی کچھ نہیں سکتے تھے اسلئےہم نے طالبان کو بد دعائیں اور شہباز شریف اور خبر سنانے والے  لڑکے کو برا بھلا کہتے ہوئے رحیم یار خان کا قصد کیا۔ ہمیں اتنا دکھ لیپ ٹاپ کے نا ملنے کا نہیں تھا جتنا اس بات کا تھا کہ ہماری چھٹیاں ضائع ہو گئیں ۔جس مقصد کےلئے ہم چھٹیوں میں بھی لاہور بیٹھے تھے وہ بھی پورا نا ہوا۔نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ جب شام کو ہم اڈے پر پہنچے تب ہمیں  ایک بیہودہ ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں کسی دوست نے پھلجھڑی  چھوڑی کہ لیپ ٹاپس یونیورسٹی پہنچ چکے ہیں اور سیکیورٹی  نہ ہونے کی وجہ سے انہیں رکھا نہیں جا سکتا۔ اسلئے صرف تقریب کینسل ہوئی ہے لیکن لیپ ٹاپ صبح  ڈیپارٹمنٹ سے مل جائیں گے۔اگر ہم ان سیاہ ست دانوں سے واقف نا ہوتے تو  اس ایس ایم ایس پر یقین کر لیتے۔ بھلا اگر تقریب نہیں ہونی تو لیپ ٹاپ کس لئے دینے۔ جس تشہیر نامی بلا کے لئے حکومت اتنا خرچ کر رہی ہے وہ ہی نہ ہو تو لیپ ٹاپس تو ضائع گئے نا۔یہ سوچ کر ہم نے اس ایس ایم ایس والے جوان کو  دل ہی دل میں مغلظات سنائیں اور اللہ کا نام لے کہ بس پہ چڑھ گئے۔ لیکں ایک راز کی بات بھی بتا دوں کہ اندر ہی اندر ہمارا دل بھی ہولنے  لگا تھا کہ خدایا کہیں واقعی ایسا نہ ہو جائے۔ انہونی کو ہونی میں بدلتے ہوئے کونسا دیر لگتی ہے۔ مزید اپنی دل کی تسلی کے لئے ایک اور دوست جو کہ ہماری طرح مایوس ہو کے اپنے گھر جا رہے تھےکو فون کر کے اس ایس ایم ایس کے بارے میں بتایا تووہ بھی ہماری طرح عقلمند نکلے اور ہنسنے لگے۔ انہوں نے تو اس بات پہ ہمارا  چیزا لگانے کی کوشش بھی کی کہ کیسی بات کر رہا ہے  لیکن ہم نے بروقت فون بند کر دیا اور دل کو یہ سوچ کر تسلی دی کہ اول تو ایسا ممکن ہی نہیں اور اگر ہو بھی تو میں اکیلا نہیں ہوں۔ خیر اللہ کو یاد کر تے اور آیت الکرسی کا ورد کرتے ہوئے ہم بس میں بیٹھ گئے۔
ایک دوست جو خیر سے ہمارے روم میٹ بھی تھےلیکن ہماری طرح عقلمند نہیں تھے۔ وہ بھی تقریب کینسل ہونے کی خبر سن کر اپنے گھر فیصل آباد چلے گئے تھے  انہیں بھی اس طرح کا پیغام ملا تو  وہ دوڑے دوڑے لاہور واپس پہنچے تاکہ لیپ ٹاپ بچایا جائے لیکن لیپ ٹاپ کیا بچنا تھا مفت کی خواری مقدر ٹھہری اور کرایہ الگ۔اور انہیں خواری اور لیپٹاپ نہ ملنے سے زیادہ اپنا کرایہ لگنے کا دکھ تھا۔ سارا دن ڈیپارٹمنٹ میں دھکے کھانے کے باوجود جب کسی نے منہ نا لگایا تو خالی ہاتھ واپسی فیصل آباد کی راہ لی۔ انکی خالی ہاتھ واپسی کی خبر سن کر ہماری خوشی دیدنی تھی  کیوں کہ انکو لیپ ٹاپ نہیں ملا تو  یوں ہمارا بھی بچ گیا ۔
(جاری ہے)