ہفتہ، 8 فروری، 2014

السفر وسیلۃ الظفر

کسی سیانے عربی کا قول ہے "السفر وسیلۃ الظفر"۔ یعنی سفر وسیلہ ء کامرانی ہے۔ یہ قول ہم نے تب سنا جب آتش بچہ تھا اس لئے شروع شروع میں تو ہمیں اس کی سمجھ ہی نہیں آئی اور ہم  اسے اپنے سکول کے چوکیدار ظفر چاچا سے منسوب کرتے رہے۔ سالوں بعد جب ہمیں اسکا مطلب سمجھ آیا تو ہم اس پر ایمان کی حد تک یقین کر بیٹھے اور ہم نے گویا کامیابی کا راز پا لیا۔ اور ہر طرح کی کامیابی کے لئے اس مقولے پر عمل کرنے لگے۔ جس دن سکول میں کوئی ٹیسٹ ہوتا تو  ہم اس  ٹیسٹ میں کامیابی کیلئے سکول  کی پچھلی دیوار پھلانگ کر لمبے سفر پر نکل جاتے۔ لیکن اس طرح کے سفر کا نتیجہ ہماری امیدوں کے برعکس نکلنے کی وجہ سے ہمارا ایمان اس جملے پر سے اٹھنے لگا اور کامیابی کی بجائے ٹیچرز کے ڈنڈے، ابا جی کے تھپڑ اور اماں جی کے جوتے مقدر ٹھہرے تو  ہم نے اس جملے کو دشمن کی سازش سمجھ کر نظرانداز کرنا شروع کیا۔
کچھ عرصے بعد جب ہمیں اس مقولے کی ٹھیک طرح سے سمجھ آئی اور مذکورہ سفر کی نوعیت کا پتا چلا تو ہم نے پھر ایک بار اس پر یقین کر لینے کی کوشش کی۔لیکن جب ہمیں کئی بار اس تجربے سے گزرنا پڑا تو ایک بار پھر ہم نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور پھر  سے اسے دشمن کی سازش سمجھنے لگے۔ پھر ہمیں کسی مہربان نے بتایا کہ یہ عرب حکایت ہے تو ہمیں اصل کہانی سمجھ آئی۔ کیونکہ اگر یہ کہنے والا عربی تھا تو اسکا شائد پاکستان چکر نہیں لگا اور اگر لگا بھی ہے تو اسکے لئے یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی کیونکہ پاکستان میں سفر کرنے کیلئے انہوں نے اپنی علیحدہ سے سڑکیں بنا رکھیں ہیں  جہاں سے ہمارے جیسے راہ گزر کا گزرنا ہی ممنوع ہوتا ہے۔ رحیم یار خان میں موجود محل کے راستے تو اسی طرح کے ہیں باقی پاکستان کے بارے میں ہمیں علم نہیں۔
ہمارے اب تک کے تجربے سے ہمارا اس مقولے سے ایمان اٹھ گیا ہے کیونکہ سفر ہمارے لئے       "وسیلۃ الظفر"کی بجائے "قطعۃ من العذاب" ہی ثابت ہوا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ جب بھی سفر پر نکلنے کا ارادہ ہوتا ہے تو ہم  کچھ دن پہلے سے ہی دافع  بلیّات  دعاؤں اور وظائف کا ورد شروع کر دیتے ہیں کہ یا خدا اس بار کسی نئی آزمائش سے محفوظ رکھنا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ جب بھی کہیں جانے کا پروگرام بنے تو چند دن پہلے ہی سے ہماری راتوں کی نیند غارت ہو جاتی ہے اور رات کو لائٹ بند کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ اگر بد قسمتی سے نیند آ بھی جائے تو پرانے ہمسفروں اور بسوں کے عملے کی شکلیں ہمیں بھوت بن کے ڈرانے لگتی ہیں۔ انکی ہنسی سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے  وہ کہہ رہے ہوں کہ اب کہاں جاؤ گے بچو۔۔۔
اب چونکہ ہم پڑھائی کیلئے گھر سے سینکڑوں میل دور آ بسے ہیں اسلئے اس سب کے باوجود وقتاً فوقتاً لمبا سفر کرنا پڑتا ہے۔ بالفاظ دیگر ہمارے لئے صورتحال کچھ یوں ہے کہ
اک آگ کا دریا ہے اور "کود" کے جانا ہے
اور دوران سفر اس اچھل کود کے دوران ہماری جو حالت ہوتی ہے  اور اس دوران جو انواع اقسام کے نمونے ملتے ہیں وہ ناقابل بیان ہیں۔ لیکن بیان کئے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں کیونکہ یہ سب برداشت کر کے   ہماری حالت اتنی بری ہو چکی ہے کہ کتھارسس کئے بغیر کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا۔ بلکہ ایک ڈاکٹر صاحب تو ہماری حالت زار سن کر حیر ت سے فرمانے لگے کہ کمال ہے آپکا ابھی تک نروس بریک ڈاؤن نہیں ہوا۔
سفر کا سب سے اہم حصہ سواری کی حالت زار ہوتا ہے۔ اگر آپ  نے  پاکستان میں چلنے والی درمیانے درجے کی روڈ ٹرانسپورٹ  پر کبھی سفر کیا ہے تو آپ ہمارے دکھ کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔  بس کا عملہ ڈرائیور کے ساتھ ٹاپے پر بیٹھ  پکے سگریٹ لگا رہا ہوتا ہے اور اسکے عین اوپر"سگریٹ نوشی منع ہے" کا ایک  بڑا سا اسٹیکر لگا ہوتا ہے ۔  اس دوران بس میں دھویں کی بو کو ختم کرنے  کیلئے ائر فریشنر کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی "خوشبو" سونگھنے کے بعد آپکو چرس کی بو بھی اچھی لگنے لگتی ہے ۔
دوران سفر ایک اور کڑی مشقت جس کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ بس میں چلنے والے گانے ہوتے ہیں۔منی بیگم اور عطاءاللہ خان عیسیٰ خیلوی کے ایسے ایسے گانے چلائے جاتے ہیں جنہیں ہم چند منٹ بھی سن لیں تو ہمیں قے آجاتی ہے اور ہم دیواروں میں ٹکریں مارنے لگتے ہیں جس سے ہمارے سر میں بھی درد شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں کوئی بھی ذی ہوش انسان ایسے  گانے صرف اسی وقت سنتا ہے جب اسے خود اذیتی مقصود ہو۔ویسے بھی ہمارے مشاہدے کے مطابق عطاءاللہ کے گانے تب اچھے لگتے ہیں جب آپ نے کم و بیش چار پانچ شادیاں کر رکھی ہوں لیکن پھر بھی آپ سچے پیار کے متلاشی ہوں۔
لیکن بسوں اور ٹرکوں والوں کو تواتر سے عطاءاللہ کے گانے سنتے دیکھ کر ہمیں اپنے خیال پر شک ہو چلا تھا کہ یہ عقدہ کھلا جس  سے ہمارے خیال کی تصدیق ہو گئی۔ ہوا کچھ یوں کہ ہم ایک بارتنگ آ کر کنڈیکٹر سے الجھ پڑے کہ بھائی خدا کا خوف کرو ہمیں ہمارے گناہوں کی دنیا میں سزا نہ دو اور گانے بند کردو۔ کنڈیکٹر صاحب فرمانے لگےکہ اگر گانے بند کر دئیے تو استاد سے  گاڑی نہیں چلے گی۔
 کیوں بھائی استاد نے ڈیک میں چرس کا تڑکہ لگایا ہوا ہے؟
نئیں پا جی توانوں  نئیں پتا اگر گانے بند ہو گئے تے استاد نو نیند آ جانی فیر اگے تسی آپ سمجھدار او۔
یہ سن کر ہم حیران رہ گئے اور تھوڑے سے پریشان بھی ہوئے لیکن ہم چونکہ گانوں سے بیزار ہوئے بیٹھے تھے اسلئے گانے بند کروانے پر اڑے رہے۔ کنڈیکٹر صاحب نے "جیویں تواڈی مرضی" کہہ کر گانے بند کروا دئیے۔ گانے بند ہونے پر ہم نے سکون کا سانس لیا اور اطمینان سے سیٹ پر سر رکھا اور آنکھیں بند کر کے  سفر سے لطف اندوز ہونے لگے۔گانے بند ہوئے ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ بس کو زوردار جھٹکا لگا اور ہم سمیت کئی مسافروں کا سر اپنی اگلی نشستوں  سے ٹکرایا اور تمام مسافروں کے منہ سے با جماعت گالیاں ابل پڑیں۔ ہم نے غصے سے ڈرائیور کی طرف دیکھا تو کنڈیکٹر صاحب ہماری طرف آئے اور فرمانے لگے "پاجی میں توانوں پہلے ای کہیا سی"۔
آپکے سفر کا اچھا یا برا ہونا آپکے ہمسفر بالخصوص آپکی ساتھ  والی نشست والے مسافر اور  اگلی اور پچھلی نشستوں پر برا جمان مسافروں پر بھی منحصر ہوتا ہے۔اگر آپ ہماری طرح شریف(شریف اسلئے کہ جو کچھ کر نہیں سکتا وہ شرافت ہی دکھا سکتا ہے) اور دھان پان سے آدمی ہیں  تو آپکے ساتھ والا مسافر  آپکی چوتھائی نشست پر قبضہ کرنا اپنا حق ہمسائیگی سمجھتا ہے اور اگر وہ آپکی آدھی نشست پر قبضہ کر لے تو وہ اسکا بونس۔ اسی طرح  اکثر مسافروں کو بولنے کی بیماری ہوتی ہے انکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ 12 گھنٹے کے سفر میں  آپکے ساتھ کوئی رشتہ داری نکال لیں ۔ اگر کوئی زیادہ ایڈوانس ہوں تو وہ آپ سے رشتہ داری بنانے کے لئے بھی تیار ہو جائیں گے ۔
مسافروں کی وہ قسم جو ہمیں پسند ہے وہ   بے حد نایاب ہے۔یہ وہ مسافر ہیں جو بس میں سوار ہو کر صرف ایک بار ہی  زبان ہلاتے ہیں۔ "ایکسیکیوزمی "  اور بیٹھ جاتے ہیں۔یا پھر ایسے لوگ جو صرف تعارف کرتے اور کرواتے ہیں اور باقی کا سفر  خاموشی سے کٹتا ہے۔ اگر آپکو ایسا ہمسفر  میسر آ جائے تو اللہ کا شکر ادا کریں اور ہو سکے تو خوشی میں کچھ صدقہ بھی کر دیں تاکہ آپکو اگلی بار بھی ایسا بیبا ہمسفر ملے۔
بہت بولنے والے مسافروں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو آپکو کھانے کی دعوت دیتے ہیں اور اگر آپ انکار کردیں تو وہ مزید اصرار کرتے ہیں اور اگر آپ تب بھی انکی دعوت قبول نہ کریں تو وہ کوئی ایسا جذباتی جملہ بولیں گے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپکی آنکھوں میں سے آنسو آ جائیں گے۔ ایک بار یونہی ایک ہمدرد ہمسفر ملے انہوں نے ہمیں سفر کے آغاز میں ہی اپنا مکمل تعارف ، پتہ اور سفر کی وجہ بیان فرما دی ۔  اسکے  ساتھ ساتھ اپنےنومولود  بھانجے کی تصویر   بھی دکھائی اور  اپنے  گھر میں آنیوالے نئے مہمان  کی آمد  کی پیش گوئی بھی کی۔ ان صاحب نے دوران سفر ایک اسٹاپ سے کچھ چپس  وغیرہ خرید لئے اور ہمیں بھی کھانے کی دعوت دی جسے ہم نے شکریہ کے ساتھ ٹھکرا دیا۔ انکے بارہا اصرار پر بھی میں نے لینے سے انکار کیا تو فرمانے لگے " یہ میں نے آپکے لئے خریدے تھے میں تو چپس ویسے ہی نہیں کھاتا"۔
کچھ گھنٹوں بعد جب ہم سردی سے بچنے کے لئے اپنے اوپر چادر ڈال کر سو رہے تھے تو ہمیں سردی لگنے کا احساس ہوا   ۔ اٹھ کر خالی الذہنی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھا ۔ پہلے تو کچھ سمجھ نہ آیا لیکن حواس بحال ہونے پر دیکھا کہ وہ صاحب ہماری چادر لے کے آرام فرما رہے ہیں۔
دوران سفر اکثر اوقات آپکے ساتھ والے مسافر آپکو امی جی سمجھتے ہوئے آپکے کندھے پر اپنا سر  رکھ کر آرام فرمانا بھی پسند کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کو وہ اپنا حق سمجھتے ہیں اور آپ سے شفقت کی امید رکھتے ہیں۔ ایک بار ہمارے ساتھ ایک بھاری بھر کم صاحب بیٹھ گئے۔حق ہمسائیگی تو وہ بیٹھتے وقت ہی حاصل کر چکے تھےمطلب ہماری چوتھائی سے کچھ زائد نشست پہ قبضہ۔ بس کی روانگی سے کچھ دیر بعد ہی انکے ناک سے جلترنگ بجنے لگا۔شروع میں تو خاصی کوفت ہوئی لیکن پھر قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا۔ یہاں تک تو بات قابل برداشت تھی ۔لیکن کچھ دیر بعد انہوں نے اپنا تقریباً پونے بارہ سیر وزنی سر ہمارے کمزور سے کندھے پہ ٹکا دیا جو کہ پہلے ہی ہمارے گناہوں کا بوجھ اٹھا اٹھا کے تھک چکے تھےاب انکے سر کا وزن کہاں برداشت کرتے۔ اب ہم اس کڑی مصیبت میں پھنسے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کر رہے تھے اور ماضی میں کئے گئے نیک کام یاد کرنے کی  کوشش کرنے لگے جو اس "بھاری پتھر " کو ہمارے کندھے سے ہٹا دیتے۔
لیکن باوجود کوشش کے جب ہمیں کوئی ایسا کام یاد نہیں آیا تو ہم نے اللہ سے اپنے اگلے گناہ کی پیشگی معافی مانگی  ۔ نیکیاں یاد کرنے کی کوشش چھوڑ کر اپنے زور بازو پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا اور انکی بڑھی ہوئی توند میں اپنی سلاخ سی کہنی چبھو دی۔زور بازو کے استعمال کی برکت سے وہ صاحب نیند سے بیدار ہوئے ۔ سیدھے ہو کر تھوڑی دیر ادھر ادھر دیکھا اور چند منٹ بعد پھر ہارمونیم بجنے لگا اور اسی ترتیب سے وہ پھر ہمارے کندھے پر آ گرے۔ ہم نے بھی اپنا طریقہ آزمایا اور ساری رات یہ کھیل چلتا رہا وہ اپنا حق استعمال کرتے رہے اور ہم اپنا زور بازو۔گیارہ گھنٹے کے طویل سفر کے بعد صبح جب ہم اپنے گھر پہنچے تو ہمارا دایاں کندھا تقریباً سن ہو چکا تھا اور مزید بوجھ اٹھانے سے انکاری بھی۔ ہفتہ بھر ناریل کے تیل کی مالش کرنے سے ٹھیک ہوا اور تب تک ہم لاہور واپسی کےلئے تیار ہو چکے تھے۔
بس پر سفر کے دوران ہمیں عام طور پر بس کی تنگ اور سخت نشستوں سے مسئلہ رہتا اور ہم بس مالکان کو برا بھلا کہتے رہتے۔لمبے سفر کے دوران تنگ اور سخت نشست پر بیٹھنا بہت اذیت ناک مرحلہ ہوتا ہے۔لیکن جب پہلی بار ہمیں اسکائی ویز  لاہور پر سفر کا اتفاق ہوا تو وہ نشستیں جن پر بیٹھنا ہمیں عذاب لگتا تھا  پھولوں کی سیج لگنے لگیں۔ اسکی وجہ شیخ سعدی کی جوتوں والی حکایت سے ملتی جلتی ہے۔ شیخ سعدی کی روح سے معذرت کے ساتھ
"مجھے بس کی تنگ اور سخت نشست پر بیٹھنا عذاب لگتا تھا اور میں اسکی برائیاں کر کے نا شکری کا مرتکب ہوتا تھا۔ لیکن جب اس نشست پر بیٹھ کر میں نے اپنے قدموں میں موڑھا رکھ کے بیٹھے ہوئے آدمی کو دیکھا تو نشست پا لینے پر اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنی ناشکری کی معافی مانگی"۔

16 تبصرے:

  1. بہت خوب جی زبردست۔
    ویسے ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ جہاں سفر وسیلۂ کامرانی ہوتا ہے وہیں پر سفر تکلیف بھی ہوتا ہے۔
    بہرحال زبردست انداز میں روداد، مسافروں کی تکالیف اور معاشرے کی بے پروائیاں اور ہٹ دھرمیاں واضح کی ہیں۔
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ہو۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت عمدہ تحریر ہے بھئی۔ ہم بھی آپ جیسے ہیں، گھر سے دور ڈگری کے لئے۔ باکل ہو بہو تجربات کا سامنا ہوتا ہے۔ اور ہمیں بھی باتونی ہمسفر اچھے نہیں لگتے۔
    اتنا ہی کافی ہے ورنہ بلاگنگ کے اس سفر میں اپنی کوئی جان پہچان نہ نکل آئے۔
    ما شا اللہ آپ اچھا لکھتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں بھی آپ سے دلی ہمدردی ہے ;)
    بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ :)

    جواب دیںحذف کریں
  4. بالکل درست منظر کشی آپ نے اپنی پسوں کی، ہم لوگ کہنے کو اردو میں سفر کرتے ہیں لیکن ہو تا انگریزی والا سفر ہے ۔ میں نے بھی بڑے لمبے لمبے سفر کئے اور سفر سے پہلے میری بھی با،کُل ایسی ہی حالت ہوتی تھی خصوصا جب گھر سے واپس کام پر جانا ہوتا تھا۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. بس جی یہ ہر پاکستانی کا رکھ ہے اور اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ سفر میں سفّر نہ ہو تو سفر کا مزہ نہیں آتا :)

    جواب دیںحذف کریں
  6. بہت اعلی بہت خوب
    سفر کے "مصائب" کی ٹھیک ٹھیک نشانہ بندی کی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. واہ یار مزا آگیا پڑھ کے میں نے بھی پاکستان میں اسی قسم کی بس سے لاہور سے ملتان براستہ بورے والا سفر کیا تھا ، قسمے توبہ کی تھی آئندہ کے لئے ۔ مجھے تو بلال ٹریولز اچھی لگی ہے بہترین بس ہے ان لوگوں کی :ڈ

    جواب دیںحذف کریں
  8. دوسری بار ترغیب دلائے جانے کی وجہ سے پڑھا ہے اور بالکل ویسا ہی پہلی بار کی طرح ہنسا ہوں۔
    قلم کو زنگ نا لگ جائے اس لیئے موقع ملے تو لکھ دیا کریں۔
    شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  9. ہاہاہاہا خوب لکها اب میں آپ کے ساته اپنے میاں بچوں کا بس کے سفر سے انکار کی وجہہ سمجه سکی انڈیا میں گهومنے پهرنے کا پروگرام بنایا جاتا بس وہ باتوں سے آگے ہی نہیں بڑتا .مجهے تو نت نئی انداز کے لوگ ہر بار ایک نیا تجربہ ایک نرالا ماحول ایک اچهوتا سا تجربہ بہت اچها لگتا ہے .
    بہت بہت عمدہ لکها اب یہبس کا سفر ہمارے نصیب میں کہاں اس لئے آپ کا تفضیلی سفر کا حال پڑهکر بہت اچها لکها..

    جواب دیںحذف کریں
  10. بہت عمدہ
    بس اس سے زیادہ کیا تعریف کریں کہ اگر ہم آپ کو اپنا شاگرد نہ سمجھتے تو آپ کو استاد بنا لیتے
    :)

    جواب دیںحذف کریں
  11. بھائی جی اگر کبھی ریل گاڑی چھکا چھک میں بھی جھولیں ہیں تو باتھ روم کے پاس جلتے پیلے بلب اور سرائیکی بچوں پر بھی ایک پوسٹ ہوجائے، خود لکھنے کا ارداہ تھا مگر آپ کی منظر نگاری کمال لگی اب آپ ہی لکھیں اس پر بھی

    جواب دیںحذف کریں
  12. @علی بھائی بہت بہت شکریہ
    یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے ^_^

    جواب دیںحذف کریں
  13. @رضی اللہ بہت شکریہ جناب
    بالکل جی ریل گاڑی میں بھی بہت دفع جھولنے کا موقع ملا ہے کوشش کروں گا کہ آپکے حکم کی تعمیل ہو :)

    جواب دیںحذف کریں
  14. @انکل ٹام بہت شکریہ جی :)
    جی بلال ٹریولز کافی بہتر ہے تقریباً ڈائیوو جیسی سروس دیتے ہیں اور نسبتاً سستے بھی ہیں
    @سلیم صاحب بہت شکریہ جی آپ حوصلہ افزائی فرماتے رہا کریں :)
    دوسری بار ترغیب کی وجہ بھی عرصے بعد لکھنا ہی ہے جی وہ کیا ہے نا نیا تو کچھ لکھا نہیں پچھلا ہی بار بار پڑھا دو :)
    @کوثر بیگ صاحبہ بلاگ پر تشریف لانے اور پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ
    اللہ آپکو خوش رکھے اور آپکو بھی بسوں کے سفر سے آشنا کرے اور وہ سفر بھی اچھا گزرے :)

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ